اللہ دشمن کو بھی پیپلز پارٹی کی حکومت نہ دکھائے " تحریر : نجیب ایوبی

کراچی شہر کی ترقی ، امن و امان کی بحالی ، سڑکوں کی درستگی ،کچرے کی صفائ - ٹریفک جام کے مسائل ، پبلک ٹرانسپورٹ کا نه ہونا، فٹ پاتھوں پر ٹھیلے اور شو روم ، چاہے چمکتی پنی پیک گاڑیوں کے ہوں یا موٹر مکینکوں کے کھوکھے ، سیوریج کے نظام کی بربادی ، پانی کی محتاجی ، سرکاری اسکولوں کا فقدان - یہ وہ چند بڑے گھناؤنے مسائل ہیں، جن کا سامنا یہاں کے شہری عرصہ دراز سے کر رہے ہیں - گو کہ کراچی کے مکین متواتر گزشته دس سالوں سے دبے دبے الفاظ میں اپنے نمائندوں سے اس بارے میں مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں - مگر کراچی میں مسلسل متحدہ قومی مؤومنٹ اور پیپلز پارٹی کی مشترکه حکومت اور اں جماعتوں کی فسطا ئیت اور لوٹ مار کے ماحول میں ان شہریوں کی آواز صدائے صحرا ثابت ہوئ - ہے -
کراچی میں دھشت گرد عناصر با الفاظ دیگر جرائم پیشہ اور بھتہ مافیا کے خلاف رینجرز کی جانب سے جو آپریشن شروع ہوا وہ اس خوفزدہ ماحول کو بہت حد تک کم کرنے کا سبب بنا اور جس کی بدولت امن ؤ امان بڑی حد تک بحال بھی ہوا جس کا کریڈٹ بجا طور پر رینجرز کے ذمہ داران کے سر ہے- متحدہ اس آپریشن اور اپنی روایتی بدمعاشی اور فسطا ئیت کی وجہ سے تین حصوں میں تقسیم ھوچکی ھے - اس تقسیم اور ریخت کے عمل میں کراچی کے مکینوں کو وقتی آرام تو ضرور آیا مگر مکمل آرام آنے میں بہت وقت لگے گا - جب تک سابقہ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اپنے عہدے پر برقرار تھے تو کچھ امید بندھی بھی تھی کہ دھشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے مکمل نجات مل جائے گی - مگر راحیل شریف کے رخصت ہونے اور کراچی کے ڈی جی کو بھی ان کی اعلی ترین کارگردگی پر پروموٹ کرنے کے بعد"مزید آگے" بھیج دیا گیا
اس تبدیلی کے ساتھ ہی جرائم پیشہ عناصر اور سیاسی جماعتوں میں موجود دھشت گرد عناصر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی - لندن قومی مؤومنٹ نے اعلانیہ اپنی طاقت کا مظاھرہ مکہ چوک پر دکھانے کی کوشش کی اور اسی طرح مختلف علاقوں میں وال چاکنگ کے ذریعے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا - یہی معاملہ پیپلز پارٹی کے چیرمین آصف علی زرداری کا ہے جو اس تمام دور میں دبئ میں موجود رہے -مگر اب واپسی کی خبر سنادی ہے - اللہ ڈینو خواجہ جیسا شریف اور فرض شنا س پولیس آئی -جی ان عناصر کو اپنی تقرری کے پہلے گھنٹے سے ہی کھٹکنا شروع ھوچکا تھا -لہذا اس شریف آدمی کو جبری طور پر آرام کی غرض سے رخصت پر بھیج دیا گیا - یہ وہ فرض شناس آفیسر ہیں جنہوں نے سرکاری معاملات میں زرداری اینڈ کمپنی کی مداخلت کبهی بھی برداشت نہیں کی اور نہ ہی کسی قسم کے سیاسی پریشر میں آئے - پیپلز پارٹی اور متحدہ ان سیاسی فیصلوں سے براہ راست مستفیض ہونے کی پوزیشن میں آچکے ہیں - اس کا آسان مطلب یہ نکلتا ہے کہ وه عناصر جن کو متحدہ اور پیپلز پارٹی کی سرپرستی حاصل تھی اور ہے ، گرفتار ہیں یا پیشیاں بگھت رہے ہیں بہت جلد باعزت باہر آ جائیں گے - رہ گیا یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ کہ کراچی کو اس کی اصل شکل یعنی روشنییوں کے شہر کی شکل میں واپس لاؤ ، دوبارہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی نظر ھوجائے گا -
سندھ حکومت نے سماجی اور سیاسی حریف جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے مطالبے پر کچھ پھرتی تو دکھائ ہے کہ سڑکوں کی تعمیر اور مرمت استر کاری کے نام پر پروجیکٹ شروع کرنے کا آغاز کیا - مگر جس پھکڑ پن اور بے دلی ناتجربہ کاری سے اس کام کا آغاز ہوا ہے شہریوں نے کان پکڑ لئے ہیں - پہلے راستہ آدھے آدھے گھنٹے جام ھوتا تھا اب دو دؤ گھنٹے جام ہورہا ہے - پہلے صرف گٹر لائن کا مسلئہ تھا ، اب ہر قسم کی لائن پھٹ چکی ہے - کسی متبادل راستے کے بغیر ہی روڈ کھود ڈالی گئی - وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ 31 دسمبرسے پیشتر کہ بجٹ ختم ہوجائے ،پروجیکٹ اناؤنس کرکے" اپنا حصہ " وصول کیا جائے - اور یہ پروجیکٹ بھی" ھوتا ھے ہو نہیں ہوتا ہماری بلا سے "کے مصداق فائلوں میں دب کر رہ جائے - صفائ ستھرا ئی کے کام کی ذمہ داری پچھلے وزیر اعلی چائنا کی کمپنی کو دے چکے تھے - فضلاء اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا کام بھی اسی کمپنی کو سونپ دیا - بجلی کی پیداوار اور ترسیل بھی چائنا کے پاس جا چکی ہے - رہ جاتا ہے حکومت سنبھالنا تو وہ کام تو پیپلز پارٹی سے اچھا کؤی سنبھال ھی نہیں سکتا - اب تو کراچی کے شہری ایک دوسرے کو دوسرے کو کہتے دکھائ دیتے ہیں کہ " اللہ دشمن کو بھی پیپلز پارٹی کی حکومت نہ دکھائے " خر بوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ کیسے نہ پکڑے ؟ چائنا کٹنگ کے طریقے متحدہ نے اپنے سیاسی دوستوں یعنی پیپلز پارٹی کو بھی سکھا دئیے اب حال یہ ہے کہ" بیٹا باپ سے بھی گورا " - ایک اور اہم ترین معاملہ کراچی کی ٹرانسپورٹ کا ہے جس جانب کسی کی بھی اسطرح توجہ نہیں جیسی ھونی چاہئے - پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر چند ا یک پرائیویٹ سیکٹر کی پرانی ہلتی جلتی دھکا اسٹارٹ بسیں کراچی میں گھومتی دکھائ دیتی ہیں جو مسافروں کے رحم و کرم پر سڑکوں پر چل رہی ہیں - مسافر پہلے دھکا لگاتے ہیں اور خود دوڑ کر اس پر سوار ھوجاتے ھیں -
اگلا الکیشن آنے والا ھے - سیاسی مذ ھبی جماعتوں نے اپنی تیاری بھی کی ھوئ ہے -مگر میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ انتخابات اسلام یا مذھب یا زبان کے نام پر نہیں بلکہ زیادہ امکان ہے کہ کام کی بنیاد پر لڑے جائیں گے - اگر یہ جماعتیں مسائل کو حل کرنے کی بنیاد پر انتخابات میں اتریں گے عوامی پذیرائ ملنے کے امکانات موجود ہیں - جماعت اسلامی نے اس میدان میں اپنے کونسلرز کی مدد کےلئے مخلص کارکنوں پر مشتمل پبلک ایڈ کو میدان میں اتار کر اس نیک کام کا آ غاز تو کر ہی دیا ہے - دیکھں اب کون میدان میں اترتا ہے ؟
متحدہ کے سیاسی کھلاڑی اپنی وفاداری کس دھڑے کے پلڑے میں ڈالیں گے ؟ ابھی کچه نہیں کہا جاسکتا - لگتا ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی "ھیڈ کوارٹر " کا حکم چلے گا - اور جس جس کو گو ھیڈ ملتا جائے گا وہ میدان مارتا جائے گا - پیپلز پارٹی کراچی کے مضافاتی اضلاع میں نئی حلقہ بندیوں سے اپنے لئے مزید سیٹوں کی گنجایش پیدا کر ہی لے گی - رہ گئی جماعت اسلامی ! اس بار اپنے دس بلدیاتی منتخب نمائندوں ، سات وائس چیرمینوں اور پچاس کونسلرز کے کام کی بنیاد پر عوام کے پاس جائے گی - جس نے چونا نہ لگایا عوام کی ترجیح وہی پارٹی ہو سکتی ہے -

Comments