سید محمد جمال الدین افغانی ( ساتواں اور آخری حصہ ) تحریر : نجیب ایوبی



جمال الدین افغانی کی ذات میں نہ صرف ایک عظیم فلسفی موجود تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ اپنے وقت کے بلند پایہ ادیب، خطیب، صحافی اور زبردست انقلابی رہنما بھی تھے ۔آپ نے اپنے علمی کام اور خدمات کے ساتھ انگریزوں کے خلاف عملا مزاحمتی تحریک بھی شروع کی ور اپنے قلم اور اپنے عمل سے اس دور کے چیلنجز یعنی انگریزی تسلط اور اشتراکیت کے خلاف جدوجہد جاری رکھی -آپ کے انقلابی پیغام اور تعلیمات کے سبب مصر 1882ء میں انگریز کے خلاف عربوں جنگ شروع ہوئی جسے " معرکہ تل الکبیر" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے - یہ بات شروع ہوتی ہے جب اسماعیل پاشا مصر کے حکمران تھے - 1862ء سے 1879ء تک وہ خلافت عثمانیہ کی طرف سے مصر کے والی رہے۔ ان کے دور میں مصر کو پہلے نیم خود مختاری اور پھر مکمل اندرونی خود مختاری ملی۔ یہ وہی دور تھا جب نہر سویز کا افتتاح ہوا اور عثمانی خلیفہ کی طرف سے سب سے پہلے انہیں ’’خدیو مصر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ اسماعیل پاشا نے عثمانی خلیفہ سلطان عبد العزیز کے دور میں مرکز( خلافت عثمانیہ ) کو جمع کروائے جانے والے محصولات میں انتہائی اضافہ کیا ، ان غیر ضروری محصولات کی وجہ سے مصر میںاچانک غربت اوربے روزگاری میں اضافہ ہوگیا - مرکز کو ادا کئے جانے والے محصولات پونے چار لاکھ پونڈ سے سوا سات لاکھ پونڈ ہو گئے -جس سے سلطان کے ہاں ( مرکز میں ) ان کی عزتو توقیر میں اضافہ ہوا۔ اسماعیل پاشا بہت زیرک آدمی تھا اس نے شاہی مراتب اور نزاکتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، سلطان کے لیے بیش قیمت تحفے و تحائف اور شاہی عملہ کے لیے تحائف کا سلسلے کو جاری رکھا جس سے شاہی محل اور حکام میں اس کا اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا اور اس کے عوض وہ سلطان عبد العزیز سے دو قسم کی مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ۔ پہلی یہ کہ عثمانی خاندان کا دستور تھا کہ خلیفہ کی وفات یا خلافت سے علیحدگی کی صورت میں خاندان کا سب سے سینئر فرد ہی اس کا جانشین بنتا تھا مگر مصر کے لیے یہ ترمیم کر دی گئی کہ والی مصر کی وفات یا علیحدگی کی صورت میں اس کا حقیقی بیٹا جانشین بنے گا۔ دوسری رعایت اسماعیل پاشا نے یہ حاصل کی کہ 1872ء میں سلطان عبد العزیز سے اجازت نامہ حاصل کر لیا کہ وہ مصر کے لیے اپنے طور پر بھی بیرونی ممالک سے قرض حاصل کرنے کا مجاز ہوگا ان مراعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے دس سال کے اندر بیرونی ملکوں سے دس کروڑ پونڈ کے لگ بھگ قرضے حاصل کئے - یہ قرضے دولت عثمانیہ کے مجموعی بیرونی قرضوں کے برابر تھے ۔ کہنے اور ظاہر کرنے کو تو قرضوں کا یہ حجم مصر کے ترقیاتی کاموں مثلا سڑکیوں کی تعمیر اسکول صنعتیوں عمارتوں کے لئے تھا مگر اصلا ان قرضوں کا استمعال ذاتی شاہ خرچیوں کے لئے تھا - جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مصر کی حکومت مالی اعتبار سے قلاش ہوتی چلی گئی - ملازموں اور سرکاری افواج کی تنخواہیں نکالنی مشکل ہوگئیں - معیشت تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار تھی ، مہنگائی کا عفریت منہ پھاڑے مصریوں کو نگلنے کے درپئے تھا - یہ حالات دیکھتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کا روں نے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کردیا اور غیر ملکی حکومتیں اپنے سرمائے کو محفوظ بنانے کی فکر میں لگ گئیں- چنانچہ اسماعیل پاشا نے نہر سویز کی ملکیت میں سے مصری حکومت کے حصے کے جو 44 فیصد حصص تھے، سب کے سب فروخت کر دیے۔ حکو مت برطانیہ نے تمام حصص خرید لیے۔ معاشی ابتری اور افراط زر کا عالم یہ تھا کہ نہر سویز کے یہ حصص فروخت کر کے بھی قرضہ ادا نہ ہوسکا جس کے نتیجہ میں اسماعیل پاشا نے 1876ء میں سرکاری ہنڈیوں پر لوگوں کو رقوم کی ادائیگی روک دی اور ملک میں خلفشار کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ قرض دینے والے یورپی ملکوں نے قرض خواہوں کے مفادات کے تحفظ کے عنوان سے مشترکہ طور پر ایک نگران کمیشن قائم کر لیا جس نے مصر کے مالی معاملات میں مداخلت کر کے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ یہی وقت تھا جب اسماعیل پاشا نے انگریزوں کے عزائم بھانپتے ہوئے عثمانی خلیفہ سے اجازت لیکر مصر میں فوج کی تعداد 18 ہزار سے بڑھا کر 30 ہزار کر دی۔ مگر مالی معاملات کے نگران یورپی کمیشن نے مداخلت کی اور 1878ء میں اسماعیل پاشا کو مجبورا اپنی کابینہ میں دو غیر ملکی وزیر شامل کرنا پڑے جن میں ایک انگریز اور دوسرا فرانسیسی تھا۔ مالیات اور اخراجات کی نگرانی کے محکمے ان دونوں کو دیے گئے اس کے بعد فی ا لفور نگران یورپی کمیشن نے فوج کی تعداد کم کر کے 11 ہزار کر دی۔ 17 ہزار سپاہیوں کے ساتھ اڑھائی ہزار سے زائد افسران کو ملازمتوں سے جبری طور پر برخواست کردیا گیا جس کے با عث داخلی خلفشار میں مزید اضافہ ہوگیا۔ حتیٰ کہ سبکدوش ہونے والے سپاہی اور افسران نے احمد عرابی پاشا کی قیادت میں بغاوت کر دی جس کے نتیجے میں اس وقت کے خلیفہ سلطان عبد الحمید نے اسماعیل پاشا کو معزول کر کے اس کے بیٹے توفیق پاشا کو مصر کا والی بنا دیا۔ نئے والی توفیق پاشا نے احمد عرابی پاشا کو وزارت میں شامل کر لیا اور احمد عرابی پاشا نے مصر کے معاملات میں یورپی ممالک کی مداخلت کو کم کرنے اور فوج کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات شروع کر دیے جس سے یورپی ملکوں میں بے چینی پیدا ہو گئی اور یورپی ممالک نے استنبول میں مشترکہ کانفرنس منعقد کر کے خلیفہ سلطان عبد الحمید سے مطالبہ کیا کہ وہ مصر میں بغاوت پر قابو پانے اور حالات بحال کرنے کے لیے فوج کشی کریں۔ جس سے سلطان عبد الحمید نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنی ہی مسلم رعایا کے خلاف فوج کشی نہیں کر سکتے۔ اس دوران فرانس اور برطانیہ نے اپنے جنگی جہاز اسکندریہ کے ساحل پر لا کھڑے کیے اور براہ راست فوجی مداخلت کی دھمکی دے دی۔ اور بالآخر 12 جولائی 1882ء کو نہر سویز کے حوالہ سے برطانوی مفادات کے تحفظ کے عنوان سے برطانوی فوجیں اسکندریہ میں داخل ہوگئیں اور اسی سال 15 ستمبر کو انہوں نے احمد عرابی پاشا کی فوج کو شکست دے کر قاہرہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اسطرح مصر مکمل طور سے برطانیه کے زیر تسلط آگیا - اس بغاوت کو جمال الدین افغانی کے معتقیدین اور شاگردوں کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی - اور جمال الدین افغانی کھلم کھلا انگریز کی مخالفت میں اور مصر کی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہونے والی معاشی ابتری سے نجا ت دلانے کے لئے ایک عرصے سے مصریوں کو تیار بھی کررہے تھے - جمال الدین افغانی ایک طرف مصر و ہند میں انگریزی پالیسی پر خوب نکتہ چینی کرتے رہے- دوسری طرف ایران کی حکومت نے جب انگریز حکومت سے تمباکو کی فروخت کا معاملہ کیا تو اس کی زبردست مخالفت کی- 1890 ء میں ایرانی شہنشاہ ناصر الدین شاہ قاچار نے برطانوی سرمایہ کار جیرالڈ ٹالبوٹ سے ملاقات کی اور ایرانی تمباکو کی صنعت کو برطانوی کمپنی کے حوالے کرنے کا معاہدہ دستخط کیا۔ ایرانی قوم نے اپنی صنعت کو برطانوی سرمایہ کاری کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ نامور مسلم رہنما سید جمال الدین افغانی نے ایران کے آیۃ اللہ الغظمی میرزا حسن شیرازی کو خط لکھا کہ تہران میں تعمیر ہونے والی اس کمپنی کے ہیڈ کوارٹر کی دس میٹر چوڑی دیوار اور اس پر توپ کے چبوتروں سے ایرانی قوم کو کیا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تو برطانوی سرمایہ دار کا وہی ہتھکنڈا تھا جو انہوں نے تین صدیاں قبل ہندوستان پر چلا کر یہاں پر قبضہ کیا تھا۔ ملا میرزا رضا شیرازی نے فتوی دیا کہاس حالت میں جو شخص اس کمپنی کا تمباکو پیے گا، وہ امام مہدی سے جنگ کرنے کے برابر تصور ہو گا۔ تمباکو کو حرام قرار دیے جانے کے فتوے کے ساتھ‍ ہی ایران کے عوام نے ہر شہر میں ٹنوں کے حساب سے تمباکو چوکوں پر رکھ‍ کر نذر آتش کر دیا۔ یہاں تک کہ شاہی دربار میں موجود خواتین نے اپنی چلمیں توڑ دیں۔ اور یوں برطانوی کمپنی کو ایران سے اپنا بوریا گول کرنا پڑا۔ اس مہم کے پیچھے جمال الدین افغانی کا انقلابی ذہن پوری طرح کارفرما تھا - ایران کے علماء کو ساتھ ملا کر انھوں نے تمباکو کی کاشت حرام ہے اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن بھی حرام ہے کا فتویٰ جاری کروادیا - ناصر الدین شاہ قاچار جس نے ایران میں مذہبی بغاوتوں کو کچلنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔ بہائی اور بابی( جعلی نبوت کا دعویدار ) کو سخت ترین انجام سے دوچار کیا-جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1852ء میں ایک بابی نے ان پر ایک قاتلانہ حملہ کیا۔ قتل ہونے کے بعد سے انہیں شاہ شہید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مگر ان کے قتل کا الزام اور سازش کی تیاری کا الزام بھی جمال الدین افغانی پر لگایا گیا اور اسی غلط فہمی میں آپ کے مخالفین آپ پر بابی ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں - (میری تحقیق کے مطابق یہ محض الزام ہی ہے - آپ خاندانی سنی مسلمان تھے ) - اسی طرح کا ایک سلسلہ جمال الدین افغانی کی وفات کے بعد نہایت شدت کے ساتھ اٹھایا گیا کہ جمال الدین افغانی فری میسنری تنظیم سے وابستہ تھے - حوالے کے طور پر جو بات پیش کی جاتی ہے وہ میں من و عن پیش کرتا ہوں - بشیر احمد کی کتاب ’’ فری میسنری میں درج ہے کہ "1876کے لگ بھگ وہ اطالوی لاج Luce De Orient کے ممبر بنے ۔ 1877تا 1897انہوں نے مصر کی ماسونی تنظیموں سے روابط استوار کیے ۔ بعض دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ افغانی نیل لاج قاہرہ کے بھی ممبر تھے جو نیشنل گرینڈ لاج مصر کے ماتحت چل رہی تھی ۔ اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ افغانی نے 24جنوری 1877کو اس لاج کے ایک غیر معمولی اجلاس میں شرکت کی اور اگلے سال جنوری 1878میں انہیں اس لاج کا صدر منتخب کیا گیا ۔ اس سے خفیہ برطانوی اداروں سے ان کے روابط بھی ظاہر ہوتے ہیں افغانی چونکہ کئی فری میسن لاجوں کے ممبربنے اس لیے ان کی سیاسی سر گرمیوں کا مکمل علم نہیں ہوتا ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو بشیر احمد کی کتاب ’’ فری میسنری ‘‘: ۲۳۴-۲۳۹) خلیفہ سلطان عبد الحمید کی وفات کے بعد ایک ڈائری سے ملنے والی ان کی تحریری یاد داشت کے مطابق جو سلطان عبد الحمید کی ذاتی ڈائری کی شکل میں شائع ہوچکی ہے ۔ اہم حقائق ظاہر ہوتے ہیں ۔ بشیر احمد نے اپنی کتاب ’’ فری میسنری ‘‘ میں سلطان عبد الحمید کی ڈائری کا ایک اقتباس نقل کیا ہے ملاحظہ ہو : ’’ ان کے ہاتھ ایک منصوبہ لگا جو برطانوی وزارت خارجہ کے دفتر میں تیار ہوا تھا اس منصوبے میں دو آدمی بنیادی کردار کی حیثیت رکھتے تھے ایک جمال الدین افغانی اور ایک انگریز جو اپنا نام بلنٹ Blunt بتاتا تھا ۔ منصوبے میں کہا گیا تھا کہ ترکوں سے خلافت کی قباء لے لی جائے اور مکہ کے شریف حسین کو مسلمانوں کا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا جائے ۔ ‘‘( ص ۲۳۹) سلطان عبد الحمید لکھتے ہیں : ’’ میں جمال الدین افغانی کو قریب سے جانتاتھا جب وہ 1879میں مصر میں تھے ۔ وہ بہت خطرناک آدمی تھے مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے ایک بار انہوں نے میرے سامنے تجویز رکھی کہ وہ وسطِ ایشیاء کے مسلمانوں کو روس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرسکتے ہیں مجھے خوب علم تھا کہ افغانی ایسا کرنے پر قادر نہیں وہ انگریز کے آدمی تھے اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ انہیں انگریز نے میری جاسوسی کے لیے تیار کیا تھا میں نے فوراً انکار کردیا میں نے ابو الہدیٰ الاصیادی الجلی کے ذریعے انہیں استنبول آنے کی دعوت دی اور پھر انہیں نکلنے نہ دیا اور یہیں ان کی وفات ہوئی ۔" یہ تو تھے وہ الزمات جو جمال الدین افغانی پر ان کے مخالفین نے لگا ئے - میں اس پر اپنی کوئی رائے دینے کی کوشش نہیں کرونگا - البتہ اتنا ضرور کہونگا کہ جمال الدین افغانی پر یہ الزامات کس کیمپ سے آرہے ہیں ؟ سلطان عبدالحمید ؟ جن کے دور اقتدار میں افغانی کو قید میں رکھ کر زہر دیا گیا اور ایران؟ جہاں شہنشاہ ناصر الدین قاچار کے قتل کا ا لزام لگا کربابی ہونے کا الزام لگایا گیا- اور پھر یہ کیسا فری میسنری تھا جس کی تمام عمر انگریزوں سے مخا لفت اور ان کے مقابلے پر مسلم امت کو متحد کرنے کی جدوجہد میں گزر چکی ہو - جو مشترکہ مسلم درسگاہ کا خواب دیکھتے دیکھتے دنیا سے گزر گیا ، جو ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کی چال کو سمجھنے کے بعد فری مسنریز کے سرغنہ اور یہودیوں کے سرخیل برطانیہ کے خلاف ا یران حکومت کو مجبور کرتا ہے کہ وہ برطانیہ سے معائدہ منسوخ کردے - وہ کیسا فری میسنری ہے کہ ہندوستان میں سر سید احمد خان کی فکر عقلیت پسندی کے خلاف " ہندوستانی نیچری " جیسے مقالے لکھ رہا ہے ؟ جو قرآن کے نظام کو نافذ کرنے کی تعلیم دے رہا ہے ؟ پان اسلاما ئیزشن کا نعرہ جو کہ فری مسنریز کی موت ہے ، لگا کر بکھری ہوئی مسلم امت کو مجتمع کرنے کی کوشش کر رہا ہے ؟ در حقیقت سید جمال الدین افغانی نے اپنے عہد کی دہریت اور اس کے اثرات کو اچھی طرح جان لیا تھا، وہ ان مادہ پرستانہ افکار کو اسلام کے لئے فتنۂ عظیم خیال کرتے تھے۔ چناچہ اس کے خلاف انہوں نے زبردست قلمی جہاد کیا۔ انھوں نے مادیت کے تباہ کن خصائص کو اس وقت بے نقاب کیا جب یورپ میں ڈارونیت اور مارکسیت کا چرچا تھا۔ اور بدقسمتی سے اسلامی حکومتوں کے نام پر جو علاقے مسلمانوں کے پاس تھے ان پر بھی انگریز کی مرضی سے انگریز کی آشیرواد سے حکمران مسلط تھے - جمال الدین افغانی کا قصور یہ بھی تھا کہ انھوں نے بیک وقت کئی محاذوں پر اپنوں اور پرا یوں کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا تھا - (جاری ہے )


Comments