سید محمد جمال الدین افغانی (پانچواں حصہ ) تحریر : نجیب ایوبی

جمال الدین افغانی کے ناقدین ان پر جو کفر کا فتوی لگاتے ہیں ، اس کی کچھ مزید وضاحت کے خیال سے میں پورے سیاق و سباق کے ساتھ بات کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ان کی فکر اور جدوجہد کو سمجھنے کے لئے اس الزام کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا جو ترکی میںقیام کے دوران ان پر لگایا گیا - پچھلی قسط میں قاضی عبدالغفار کی تحریر - آثار جمال الدین افغانی -کا حوالہ بھی دیا جاچکا ہے قصہ یہ تھا کہ جمال الدین افغانی کی قدر و منزلت اور اثر و رسوخ دیکھ کے ترکی کے قدامت پسند علماء ان سے جلنے لگے تھے جس کی وجہ ان کا وہ فلسفہ اسلام بنا - جس کی رو سے وہ وسعت خیالی، بلند نظری ، آزادی افکار ، صحیح آبرو مندانہ قومی وقار ، اور قومی نصب العین کی بات کرتے تھے - اور یہ قدامت پسندانہ روایتی اسلام سے بالکل مختلف سوچ تھی - یہ اپروچ قدامت پسند علماء اور روایتی ملائیت سے براہ راست متصادم ہورہی تھی - سید جمال الدین افغانی اپنی تقاریر میں جو مبا حث زیر بحث لاتے ان سے شیخ الاسلام چراغ پاء ہوجاتے - جواب میں شیخ الاسلام اور ان کے حواری ان خیالات کو بیک جنبش قلم و گفتار بدعت قرار دے دیتے - یہی وجہ تھی کہ آپ پر ترکی میں قیام کے دوران کفر کے فتوے دے گئے - مگر شیخ جمال الدین افغانی چپ رہنے والے آدمی نہیں تھے - کھل کر بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ ان فتووں اور مخالفانہ بیانات کا جواب دیتے رہے - یہاں اس واقعے کی تفصیل بہت ضروری ہے جو ان کے ترکی سے اخراج کا سبب ٹہری - جامعه قسطنطیہ کے صدر خواجہ تحسین آفندی کی دعوت پر مسجد فا تح سلطان محمد کے دار الفنون میں آپ نے ترکی زبان میں ایک تقریر کی جس میں انسانی اجتماعیت کو ایک زندہ جسم سے تعبیر کیا - اور ہر علم و فنون کو ایک جوہر خاص سے تشبیہہ دی اور نبوت ، کار نبوت اور حکمت کو بھی اس میں شمار کیا - اپنے بیان کی پوری وضاحت کے بعد آپ نے نبوت کو کسب انسانی سے بالاتر اور اس کے احکام کی پابندی کو فرض بتایا -اور علمائے وقت کو کہا کہ وہ دوسروں کو بھی اسی وقت تلقین کرسکتے ہیں جب خود ان احکا مات پر شرعیت کے مطابق عمل پیرا ہوں - اس بیان کی وضاحت کے باوجود ان پر لادینی اور جدت پسندی کا الزام لگا اور ان کے خلاف ایک شورش برپا کردی گئی - اور ان کے خیالات کو اس طرح توڑ موڑ کر پیش کیا گیا کہ افغانی نبوت کو بھی صنعاعت میں سے ایک صنعت سمجھتا ہے - اس واقعے کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور کفر کے فتوے لگے - جب یہ اطلاعا ت جمال الدین افغانی تک پہنچیں تو انھوں نے جواب دیا کہ " یہ مجھ پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں ، اور میں ان پر لگاتا ہوں " افغانی کے اس تیز و تند جواب نے جلتی پر تیل کا کام کیا - اور ہر طرف ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا - تحسین آفندی ، سلمان بلخی اور وزیر تعلیم منیف پاشا افغانی کے طرف دار تھے -اور وزیر اعظم عالی پاشا کا جھکاؤ بھی افغانی کی طرف تھا مگر وہ شیخ الاسلام اور قدامت پسند علماء کی مخالفت کا مقابلہ نہ کرسکے - اور اس وقت کے قدیم طرز جلاوطنی کے تحت ان کو حج اور زیارات کا مشورہ دیا، با الفاظ دیگر یہ مشورہ جلاوطنی کی ایک نرم سی پیشکش اور کسی درجے میں حکم ہوتی تھی - اب آپ کا اگلا سفر مصر کے لئے تھا - مرکز خلافت میں رہنے اور قدامت پسند علماء سے ٹکر لینے کی وجہ سے آپ کا مصر میں داخل ہونا ایک بہت بڑا واقعہ بن گیا تھا - ا س سے پہلے چالیس روزہ قیام کے دوران نوجوانوں اور عقیدت مندوں کی ایک کثیر تعداد آپ کے افکار سے بے پناہ متاثر تھی ، چناچہ جب دوسری مرتبہ آپ مصر پہنچے تو آپ کا شاندار طریقے سے خیر مقدم کیا گیا - جامعہ ازہر کے نوجوانوں کا مطالبہ تھا کہ آپ مصر میں مستقل قیام کریں اور نوجوانوں کی تربیت کا کام انجام دیں - یہ بات وزیر اعظم ریاض پاشا سے مخفی نہ رہ سکی - ریاض پاشا نے جمال الدین افغانی سے ملاقات کی اور خواہش ظاہر کی کہ آپ مستقل مصر میں قیام فرمائیں - مزید یہ کہ خدیو مصر کو حکم دیا کہ ان کا معقول وظیفہ مقرر کیا جائے - چناچہ آپ کا ایک ہزار قرمش ماہانہ وظیفہ مہمانی مقرر کیا گیا - آپ نے مصر میں رہتے ہوئے نظام تعلیم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھا یا - واضح رہے کہ یہ وہ حالا ت تھے جب مصر میں ترکوں کا اثر زائل ہوتا جارہا تھا - نہر سوئز نکالی جاچکی تھی - فرانسیسی اور انگریزی افکار کا بھرپور طریقے سے پرچار ہورہا تھا - نوبت اس حد تک بگڑ چکی تھی کہ فرانسیسی اور انگریز حکومتوں نے اقتصادی اور مالی معاملات براہ راست اپنی نگرانی میں لے لئے تھے - افغانی نے اس نازک موقع پر انگریز اور غیر ملکی آقاؤ ں کے سحر سے قوم کو نکالنے کے جدوجہد شروع کی - اس مقصد کے لئے انھوں نے نوجوانوں کو مجتمع کیا اور ان کو شعور و آگہی دینے اور متحرک کرنے کا راستہ اپنایا- یہ کام اتنا آسان نہ تھا - آپ نے جامعہ ازہر کو منتخب کیا اور اساتذہ و علماء کرام کو ترغیب دی کہ فی الفور نصاب میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں - آپ ہی کی کوششوں سے نصاب میں بو علی سینا کی تصانیف شا مل کروائیں گئیں - آپ نے آگے بڑھتے ہوئے علم الافلاک ، تصوف اور فلسفہ پر خود لیکچرز دیے - آپ کے لیکچرز اور خیالات کو بہت شوق سے سنا جاتا اور فوری طور پر ان کے ابلاغ کا بندوبست بھی ہوتا رہا - ان مضامین کو مختلف رسائل و جرائد میں شایع کروانے کا خصوصی اہتمام بھی ہوتا رہا - آپ کی شہرت یوروپی دنیا تک پہنچ چکی تھی ، جس کی بنیاد آپ کے انقلابی خیالات تھے - اس وقت جمال الدین افغانی سے براہ راست فیض یاب ہونے والوں میں مفتی عبدہ ، مولیحی، ادیب اسحاق وغیرہ شامل تھے - مصر میں قیام کے دوران آپ نے ایک عجیب و غریب طرز زندگی کی شروعات کییں ایک سماجی انجمن بنائی - جو " محفل وطنی " کہلاتی تھی - اس میں آپ نے اپنے عقیدت مندوں کو نہایت سادہ زندگی گزارنے کی ترغیب دی اور شاہا نہ طرز زندگی و تعیشات سے بے رغبتی کی تعلیم دی - اس طرح جو بھی بچت ہوتی اس سے غریب و نادار خاندانوں کی کفالت کا بندوبست کیا جاتا - اس شاندار کارنامے سے بیشمار مفلس خاندان نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے بلکہ ایک بہت بڑی تعداد میں عوامی پذیرائی حاصل ہوتی چلی گئی - اخلاقی تربیت کا ایک مربوط نظام وضح کیا جس میں ہر گھرانہ روزانہ قرآن کی تعلیم اور تسفیر سے استفادہ حاصل کرتا - ہر گھرانے پر لازم تھا کہ روزانہ قرآن کریم کا آدھا سپارہ تسفیر کے ساتھ تلاوت کرے گا - ( آپ کے خیال میں قرآن سے تعلق کے بغیر الحاد و مغربی افکار کی یلغار کا مقابلہ کیا ہی نہیں جاسکتا ) - لازم تھا کہ ہر سربراہ خانہ روزانہ اپنی کی کارگزاری کو ڈائری میں لکھے اور اپنا محاسبہ کرے - " محفل وطنی " نامی اس انجمن نے ایک ماہ میں اتنا شاندار عملی کام کیا کہ بچت فنڈ میں ہزاروں روپے جمع ہوگئے جن سے نادا ر خاندانوں کی مدد کی گی گئی ، مریضوں کو مفت علاج فراہم کیا گیا - پندرہ سو افراد کی توبہ کروائی گئی جو اخلاقی برایئوں مثلا شراب نوشی ، چوری ، عصمت فروشی اور دیگر برائیوں میں مبتلا تھے - اسی بچت کی رقم سے چالیس بڑے مناظروں کا انتظام ہوا جس میں مغربی مشنری کے سوالات اور ان کے غلط عقائد پر کھلم کھلا بات کی گئی اور دلیل کے ساتھ اسلام کا موقف پیش کیا گیا - کئی افراد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے - عالم یہ تھا کہ مصر کے بڑے بڑے روسا نے اس کام سے متاثر ہوکر عطیات جمع کروانے شروع کردیے - جن سے مزید اصلاحی و رفاحی کام سر انجام دے گئے - ایک اور کام یہ کیا کہ مصر میں صحافت کے نام پی صرف دو اخبار جاری ہوتے تھے جو کہ انگریز افکار کی ترویج کرر ہے تھے - آپ نے فوری طور پر وہاں سے تین معیاری جرائد مصر ، محروسہ اور مرآ تہ الشرق جاری کروائے اور ان میں خود بھی مضامین لکھے اور اپنے شاگردوں سے بھی لکھوائے - ان مضامین کا رخ زیادہ تر مغربی پالیسیز پر ہوتا تھا - جمال الدین افغانی مظہر بن وضاح کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے - آپ نے اسلام پسندوں لکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو صحافت کے میدان میںداخل کیا- جمال الدین افغانی کی ان کوششوں سے مصر میں ایک عام بیداری کی لہر پیدا ہوچکی تھی - اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ غیر ملکی مداخلت کے خلاف رائے عامہ ہموار ہونا شروع ہوگئی - یہی کام مصر میں سیاسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئے - عوام میں خدیو اسماعیل کے خلاف شورش پھیلی جس کا سبب بھی جمال الدین افغانی کی تحریک ہی تھی - سلطان ترکی نے خدیو اسماعیل کی معزولی کا حکم جاری کیا اور اس کی جگہ توفیق بے کو خدیو مقرر کردیا - یہ بات 1879 کی ہے توفیق خدیو گھنا آدمی تھا - جس کو سمجھنے میں اکثریت کو غلطی ہوئی -اس نے سب سے پہلے ان افراد کو عتاب کا نشانہ بنایا جو اس کے لئے خطرہ بن سکتے تھے -پہلا نمبر وزیر اعظم شریف پاشا کا آیا - ان کو ان کے عہدے سے برطرف کیا ، شریف پاشا فکری ا عتبار سے جمال الدین افغا نی سے متاثر تھے - اور قوم پرستوں سے ہمدردی رکھتے تھے - توفیق بے نے اس کی جگہ اپنے مزاج کے ریاض پاشا کو وزیر اعظم مقرر کیا - شریف پاشا کے بعد توفیق بے کی نظریں جمال الدین افغانی پر جاکر ٹہر گئیں اور ا س نے آپ کی جلاوطنی کا حکم صادر کیا - اس حالت میں جب آپ شدید بخار میں تھے ، رات کی تاریکی میں فوج کے ایک دستے نے آپ کی قیام گاہ جو خان خلیل میں واقع تھی کا محاصرہ کرلیا - نیند سے بیدار کیا گیا اور بنا کسی سامان کے اسپیشل ٹرین میں بٹھا کر سوئز بھیج دیا گیا - عثمان غالب نامی افسر نے ان کے کتب خانے کی ایک ہزار سے زائد کتابوں کو بحق سرکار ضبط کرلیا - صبح جب یہ خبر مصریوں کو معلوم ہوئی تو غم و غصہ کی لہر پھیل گئی اور مصر میں ہنگامے پھوٹ پڑے - جسے سرکار نے بزور طاقت دبایا - جمال الدین افغانی مصر سے نکالے جا چکے تھے مگر ان کی روح مصر میں ہی تھی - کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ ب مصر میں مظلوم کاشت کا روں کی تحریک شروع ہوگئی - یہ تحریک فتنہ عربئین کہلاتی ہے - اسی کے ساتھ مہدی سوڈانی کی تحریک نے ڈینٹ ڈالا ، اس میں جمال الدین افغانی کے شاگردوں اور معتمدین نے بھرپور حصہ لیا - مصر سے نکل کر جمال الدین افغانی نے چوتھی مرتبہ ہندوستان میں قدم رکھا - بندرگاہ بمبئی پجہنچے، کچھ دن قیام کیا اور پھر حیدرآباد چلے گئے - یہاں ایک رسالے " معلم شفیق " اور " معلم " میں چند مقالات لکھے - 1857 کی جنگ آزادی کی راکھ بجھ چکی تھی - مگر سر سید احمد خان کے مغربی اور مرعوبیت زدہ ذہنیت کے خیالات و افکار ہندوستانیوں کو انگریز کی غلامی میں جھکا نے کے لئے پوری طرح کام کررہے تھے -سر سید احمد خان کو انگریز سرکار کی بھرپور سرپرستی حاصل تھی - جمال الدین افغا نی نے کچھ مقامات پر لکچرز بھی دے اور سرسید کی " نیچریت " ( عقلیت پسندی ) کی رد میں ایک رسالہ بھی لکھا - یہ دو رسالے اور مضامین ایران اور ہندوستان میں شائع ہوئے - پہلا مضمون مشرقی اور مغربی تعلیم کے حوالے سے تھا جس میں آپ نے مشرقی اور مغربی علوم کے درمیان حد فاصل قائم کرنے سے اختلاف کیا اور فائدہ مند علم کے حصول پر زور دیا - دوسرا مذھب کے حوالے سے عقلیت پسندی کی رد میں دلائل سے بات کی گئی - جس میں سر سید کے مذہبی خیالات پر تنقیدی بحث کی گئی - ایک اور مقالہ حیدرآباد میں اردو یو نیورسٹی کے قیام کے حوالے سے تھے - جس پر آپ نے کئی مضامین لکھے- جمال الدین افغانی کے خیال میں ہندوستان میں قومی خودداری اور سیاسی شعور کو دو جماعتوں نے نقصان پہنچایا - ان میں سے ایک گروہ سرسید اور دوسرا گروہ والیان ریاست تھا - سرسید کے خلاف ان کا قلم اور زبان ہندوستان میں قیام کے دوران ہی کام شروع کرچکا تھا - مگر والیان ریاست کے حوالے سے وہ یہاں کھل کر بات نہ کرسکے - تا ھم عروتہ الوثقی میں انھوں نے اپنے مقالات میں اس موضوع پر بھی روشنی ڈالی ہے - حالات نے نیا رخ لیا ، مصر میں اعرابی پاشا کی تحریک اٹھی - یہ کسان خاندان کا رکن تھا اور ترقی کرتا کرتا وزیر جنگ کے عہدے پر جا پہنچا تھا یہ 1882 کا زمانہ ہے ، جب اعرابی پاشا کی تحریک کو عروج حاصل تھا - اس نے ایک موقع پر شدت جذبات میں یہ بیان دے دیا کہ " میں تو ہندوستان میں بھی بغاوت کروا سکتا ہوں " ان دنوں جمال الدین افغانی ہندوستان میں تھے - جس کا مطلب شا ید انگریز سرکار نے یہ لے لیا ہو کہ جمال الدین افغانی کے ذریعے ہندوستان میں انگریز کے خلاف کوئی بغاوت کروائی جاسکتی ہے - جس کے نتیجے میں حفظ ما تقدم کے طور پر جمال الدین افغانی کو کلکتے میں نظر بند کرنے کے احکامات جاری ہوئے اور جمال الدین افغانی کلکتے میں ایک سال نظر بند رھے - ( حوالہ - مضامین جمال الدین افغانی ، عبدالقدوس ہاشمی - طبع - ادارہ فروغ اردو - لاہور ) ( جاری ہے )

Comments