ساڈے اتے نہ رہنا - جاگدے رہنا : نجیب ایوبی

کچھ چیزیں اور کچھ یادیں بھلا ئے نہیں بھولتیں ، ان میں سے ایک رمضان کی سخت جا ڑوں والی رات میں " کلو سائیں دی آواز " بھی ہے
رمضان کی جاڑوں والی رات اس لئے لکھا ہے کہ میرے بچپن میں یا یوں کہہ لیں کہ جب سے ہم نے روزہ رکھنا شروع کیا ان دنوں رمضان سخت سردی میں ہی آتے تھے - لحاف میں دبک کر سونا ، بھائی اور امی کے بار بار اٹھانے ، جگانے پر بھی نہ اٹھنا ، مگر " کلو سائیں " کی ایک گرجدار آواز ہم کو تو کیا، پورے محلے کو اٹھانے کے لئے بہت کافی ہوتی - یہ کلو سائیں بھی ایک عجیب و غریب طلسماتی کردار کی طرح بہت عرصہ ہما رے دماغ پر سوار رہا - کلو سائیں کے بارے میں شروع میں اتنی ہی معلومات تھیں کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو روزہ داروں کو جگانے آتا ہے - ( اس وقت تک ہم نے کلو سائیں کو دیکھا نہیں تھا ) یہ قیمتی معلومات ہمیں بڑے بھییا نے فراہم کی تھیں - چناچہ اس فرشتے کو دیکھنے کی خواہش کا دل میں پیدا ہوجانا ایک فطری امر تھا - روز رات کو نیت کرکے سوتے کہ آج تو ضرور جلدی بیدار ہوجائیں گے اور " کلو سائیں "کا دیدار کریں گے - مگر شومئی قسمت بہت عرصے تک دیدار نصیب نہیں ہوسکا - ہر بار ہی گہری تان کر سو رہتے ، مارے سردی کے لحاف کو دائیں بائیں سے اچھی طرح لپیٹ کر ، کبھی برابر میں سوئے ہوۓ چھوٹے بھائی کا بھی کھینچ لیتے اور لحاف کی یہ کھیچم تانی اس وقت تک جاری رہتی جب تک کہ کلو سائیں کی خوفناک صدا نہ سنائی دے - رات کے آخری پہر ، جب گھپ اندھیرا اپنے عروج پر ہوتا ، سردی اپنا زور دکھا رہی ہوتی ، ایسے میں کانوں میں اچانک ایک متوازن ردھم کے ساتھ گھنگروکی جھنکار ، ڈھول کی تھاپ اور دف کی ڈفلی کا سازینہ فرشتے کی آواز کے ساتھ سنائی دیتا - پہلے یہ آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوتی مگر جب تک آنکھ کھلے ، لحاف سے منہ باہر نکلے ، آواز ہمارے سروں پر آجاتی آواز کیا تھی ایک مست نعرہ مسلسل تھی ، جس کے ساتھ گھنگرو ، ڈھول اور دف سب رقصاں ہوتے " رکھو روجا، پڑھو نماج کلو سائیں دی اوا ج " بار بار کلو سائیں صرف یہی صدا لگاتا . جب تک ھم اس کو دیکھنے کھڑکی کی طرف جاتے ، کلو سائیں آوازیں لگاتا بہت دور نکل چکا ہوتا کلو سائیں نے پوری بستی کو جگانا ہوتا تھا ، اس کے پاس اتنا وقت تھوڑی تھا کہ وہ ہمارے لئے ایک لمحے کو بھی رکتا - وہ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ، صدا لگاتا ہوا آتا اور آواز کی رفتار کی سی تیزی سے اگلی گلی اور محلے میں ہوتا - عید کے پہلے روز صبح سب سے پہلےابو سے عیدی لینے کے لئے ہمارے دروازے پر جس نے دستک دی ، وہ تھا کلو سائیں ہمارے کانوں میں پھر اسی مانوس فرشتے کی صدا گونجی ! " رکھو روجا ، پڑھو نماج - کلو سائیں دی اوا ج " ہم مارے تجسس کے دوڑے بھاگے دروازے پہ گئے کہ آج فرشتے سے ملیں گے - دروازہ کھولا ، سامنے ایک کالا بھجنگ سفید پوشاک ہاتھ میں موٹی لمبی سی لٹھ ، جس کے ٹاپ پر گھنگرو اور ، پیتل کی گھنٹیاں لٹک رہی تھیں ، ڈھول اور دف بجانے والے بھی ہمراہ تھے -ھمارے بڑے بھیا جس کو جگانے والا فرشتہ کہہ رہے تھے - آج ھم نے اس فرشتے کا دیدار کرلیا تھا - کلو سائیں کالا بھجنگ ہونے کے باوجود ہمیں بہت اچھا لگا - اس لئے کہ بچپن کے کتنے ہی رمضان کلو سائیں کی بدولت ہم سب نے اطمینان اور آرام کے ساتھ روزہ رکھا ، سحری وقت پر کی - اس زمانے میں موبائل فون تو تھا ہی نہیں اور گھڑی والا الارم بھی اتنا عام نہیں تھا - مساجد سے نعت شریف اور انتہائے سحر کے ا علانات لا ؤ ڈ اسپیکر کے ذریعے محلے بھر کے لوگوں کو بیدار کرنے کا واحد ذریعه تھے - انتہا ئے سحر کا بار بار وقت بتایا جاتا - اتنی مرتبہ کہ ہاتھ پیر پھول جائیں - " اب صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں " ا علان کرنے والے صاحب جا مع مسجد کا پورا تعارف بھی کرواتے اور اکثر تو آخر میں اپنا نام بھی بتاتے - نہ جانے غریب لوگوں کو ڈرانے کے چکر میں سحری بھی کرتے تھے کہ نہیں ؟ اب ہمارے زمانے کے کلو سائیں کو کوئی نہیں جانتا - نہ ہی کسی نے اس کی مسحور کردینے والی مست صدا سنی ہے - اب جس کلو سائیں سے لوگ واقف ہیں وہ کوئی اور ہے - وہ " رکھو روجا پڑھو نماج نہیں بولتا" - صرف گھورتا ، غراتا ، چنگھاڑتا ہے ، موڈ میں ہو تو گانے ، دوگانے اور اپنے ،بیگانے سب کچھ سنادیتا ہے - مگر اب تو مہینہ ہو گیا اس کی ہر قسم کی آواز پر قدغن لگادی گئی ہے - میڈیا پر تصویر دکھانے پر بھی پابندی ہے ، مگر میڈیا کسی نہ کسی طرح کوئی راستہ نکال ہی لیتا ہے ہمارے وقتوں میں فلم بنانا اور پھر سنسر بورڈ سے پاس کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ، سنسر بورڈ کے چئرمین مرحوم مولانا کوثر نیازی تھے - مجال ہے کوئی بھی غلط اور " انڈر دا ازار بند " منظر یا تخیلاتی منظر کشی عوام تک پہنچے - مخالفین نے تو مولانا کے بارے میں یہاں تک اڑادی تھی کہ مولانا کوثر نیازی جو فلم سنسر بورڈ میں آتی اس کے قابل ذکر حصے اپنی نگرانی میں قینچی سے کٹوا کے اپنے چرمی بیگ میں گھر لیجاتے ،اس خیال سے کہ کسی منچلے اور کم ظرف کے ہاتھ نہ لگ جائیں - آپ سب کو یاد ہی ہوگا کہ ہیرو اور ہیروئن پر اگر کوئی ایسا منظر فلمانا ہوتا جس میں ہیرو ہیروئن سے انتہا ئی حد پر جاکر محبت کا اظہار کرنا چاہتا تو اس کی منظر کشی کچھ اس طرح ہوتی کہ ایک ھرے بھرے باغ ( جو کہ میونسپلٹی کا ہوتا) یا ایورنیو سٹوڈیو اور شبا ب اسٹوڈیو کا- اس میں گھسا پٹا علامتی باغ دکھایا جاتا ، گانے کے بول بیک گراؤنڈ میں چلتے ،جس پر ہیرو ہیروئن اپنے ہونٹ ہلاتے ، اس سے زیادہ ہل جل پر فلم کا رول ضا ئع ہوجانے کا ڈر ہوتا - مارے خوف کے فلمساز فلم کے اچھے بھلے رواں مناظر کو روک روک کر چلاتا تاکہ کوثر نیازی صاحب کی عقابی نظروں سے ہیروئن اور رول دونوں کو بچایا جاسکے - ناظرین دو گلاب کے پھولوں کو ہلتا جلتا دیکھ کر، اور باغ میں دو گلاب کے پھول گلے ملتے دکھائی دے جائیں تو فلم دیکھنے والا آپ ہی آپ کہانی آگے بڑ ھا لیتا اور کبھی گھانس پھونس کے بکھرے ڈھیر کو دیکھ کر فلم کا مدعا سمجھ جاتے - گرے ہوۓ زرد پتے یا پت جھڑ کا منظر دیکھ کر سمجھ لیتے کہ معاملہ سوگوار ہے ، اور کونپل دیکھ کر مچل جاتے اور کونپل جب کھلنے لگتی تو فلم بین پوری کہانی سمجھ جاتا اور جو پھر بھی نہیں سمجھتے تھے وہ دوبارہ فلم کا ٹکٹ خریدلیتے - پھر ضیا الحق مرد مجاہد کا دور آیا ، مجلس شوری مل کر فلم کی منظوری دیتی ، پہلے ایک کوثر نیازی نے رولا پایا ہوا تھا - ضیاء الحق کے دور میں پوری شوری کو منہ دینا پڑتا تھا ، فلم سازوں ، ہدایتکاروں کی جان سولی پر ہوتی ، الله الله کرکے فلم اور ہیروئن پردہ اسکرین پر آتی - محمد علی شہکی اور الن فقیر مرحوم کا گانا " الله الله کر بھیا ، الله ہی سے ڈر بھیا " اسی دور میں گایا اور فلمایا گیا تھا - انور مقصود نے ففٹی ففٹی کے خاکےکے منظر میں ننگی تلوار کیا دکھائی ،ایک ادھم برپا ہوگیا - سین کو کاٹا گیا ، دوبارہ عکس بندی ہوئی اور نیام سمیت تلواروں کی لڑائی لڑی گئی - ضیا صاحب نے افغانستان میں یہی حکمت عملی اپنائی - اسکڈ میزائل ، پنی پیک اوجھڑی کیمپ میں نیام میں رکھ کر سڑا دئیے ، غریب افغان ڈنڈوں اور بیلچوں سے روس جیسی سپر پاور کے سامنے ڈٹے رہے - شاید یہی وجہہ تھی کہ جو جنگ دو سال میں جیتی جا سکتی تھی اس کو دس سال لگ گئے (خیر یہ میری اپنی رائے ہے آپ سب کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) بات ہورہی تھی کلو سائیں کی ، اور کہاں سے کہاں چلی گئی ؟ " کلو سائیں "، میرا والا کلو سائیں کہیں کھو گیا ہے - اب شاید میرے والے کلو سائیں کا زمانہ بھی نہیں ہے - اس دور کا سائیں کوئی اور ہے ، اب تو ہر محلے ، ہر گلی کے نکڑ پر تنخوا ہ دار چوکیدار اور سیکورٹی کمپنی کا گارڈ بیٹھا ہے - جو آپ کو سلاتا بھی ہے ، جگاتا بھی ہے - آپ کے گھر میں پانی نہ آئے تو پانی کی بوتل بھی لاکر دے جاتا ہے - آپ کے بچوں کو اسکول کی ویگن میں بھی بیٹھا تا ہے ، کہنے کو چوکیدار ہے مگر آپ کے گھر اور محلے کا پورا نظام اس تنخوا ہ دار چوکیدار کے ارد گرد گھوم رہا ہے
67 سالوں میں سے 40 سال ہم نے اس چوکیدار سے ہر قسم کا کام لیا - وہ بھی انسان ہے آخر کیا کیا کرے گا ؟ آپ کے ملک میں سیلاب آجائے ، طوفان ، زلزلہ ، آسمانی سلطانی کچھ بھی ہو ، ہر مسلئے کا ایک علاج --- الجہاد -الجہاد! خوشی کے موقع پر ، " ہر گھڑی تیار و کامران ہیں ہم " غم اور آفت کے مواقعوں پہ " اے مرد مجاہد جاگ ذرا !" قصور کس کا ؟ ذمہ داری کس کی ؟ بویا کس نے ؟ کاٹ کون رہا ہے ؟ فیلڈ مارشل ایوب خان شملہ معاہدہ کے بعد بد دل ہوکر بول پڑے " میرے اتے نہ رہنا - جاگدے رہنا " حیا دار فیلڈ مارشل تھا - چینی کی قیمت بڑھنے اور جو نعرے دیواروں پر لکھے تھے - جب ان کے اپنے پوتے نے سنائے ( کمسن تھا ، جو منہ میں آیا کہہ دیا ) ، تو ایوب خان نے مستعفی ہونے کا ا علان کردیا پھر ملک کی نگرانی یحییٰ خان کے کاندھوں پر آگئی یحییٰ خان کے ایک کندھے پر ترانہ تھیں ( اداکارہ ترانہ ) دوسرے کندھے پر میڈم ! بھلا مشرقی اور مغربی دونوں کو کیسے سنبھالتا ؟ جنرل نیازی کو مشرقی بازو تھما کر " خون کے آخری قطرے تک جنگ ہوگی " کا عندیہ دیا جس کا مطلب کچھ عرصے بعد معلوم ہوا آسان اردو میں مطلب تھا --- " ساڈے اتے نہ رہنا ، جاگدے رہنا " پھر کچھ عرصہ بھٹو صاحب نے خوب سیاسی جمناسٹک دکھائی جس کے نتیجے میں ظلمت کے اندھیارے میں شیروانی اور درمیان کی مانگ والی " ضیاء " پھوٹی . اسلام کی استر لگی شیروانی نے افغانستان میں روس کو ناکوں چنے چبوادیے تماشہ یہ کہ جگالی ' پاکستانی قوم " کو کرنی پڑ رہی ہے چوکیدار کا کام ختم ہوتے ہی مالکان نے آنکھیں پھیر لیں - قوم کیا کرے ؟ کس کا اعتبار کرے ؟ قوم نے جب اسلام مانگا ، شیروانی والا امیر المومنین تھما دیا گیا قوم نے جب بھارت سے لڑائی کی ڈیمانڈ کی " کتے والا کمانڈو " پکڑا دیا گیا ہمیں جب سائیں کی یاد آئی ، بیمثال ، بے نظیر ، زر فقیر سائیں عطا کیا گیا اور جب " کلو سائیں" کی فرمائش کی گئی ، کلو سائیں کھونٹے سے باندھ دیا گیا اور جب جب شرفاء کی حاجت ہوئی ، احرام باندھے " گنگا نہائے شرفاء" سے نوازا گیا جب بدعنوان ، رذیل ، بدکردار ، مکار ، چور ،لٹیرے ظالم ،سرمایہ دار سیاست دانوں سے چھٹکارہ پانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ؟؟؟؟ میرے مضامین کا عنوان چونکہ " ادھوری باتیں " ہے ، لہٰذا بات کو ادھورا ہی رہنے دیں ، ہاں اتنا دھیان میں رہے کہ " ساڈے اتے نہ رہنا - جاگدے رہنا "

Comments