اور اب سنیں گے کراچی کے عوام اختیارات کا رونا – نجیب ایوبی

کرا چی والوں کو ایک کے بعد دوسرا راگ کب تک سننے کو ملتا رہے گا ؟ کراچی سمیت پورے سندھ میں بلد یا تی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے - بلدیاتی ایوانوں کے سربراہ اور ان کے ماتحت منتخب کے
جاچکے ہیں - امید تھی کہ جیسے ہی بلدیاتی انتخابی عمل مکمل ہوگا - شہروں اور علاقوں میں برسوں سے رکے ہوئے ترقیاتی کام ہونا شروع ہو جائیں گے - مگر ہزاروں خواہوں کی طرح یہ خواہش بھی محض خواہش ہی رہی - بدقسمتی سے کراچی شہر میں منتخب بلدیہ کے مئیر اپنے جرائم کی طویل فہرست کی بناء رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہو گیے اور پھر ان مقدمات میں ضمانت کے بعد اب ان کی رہائی بھی عمل میں آچکی ہے - اور انھوں نے شہر میں اپنے خطابات کا آغاز بھی کردیا ہے - لیکن جس بات کا تکرار کے ساتھ رونا رویا جاتا ہے وہ ہے اختیا رات کا نہ ملنا !!!! اختیار سے مراد اگر " فنڈز " لی جائے تو میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ بلدیاتی منصوبوں اور ترقیاتی کاموں کے لئے " فنڈز " موجود ہیں - ہاں یہ ضرور ہے کہ فنڈز براہ راست بلدیاتی اداروں کے ہاتھوں میں ٹرانسفر نہیں کے جارہے - جس کی سب سے بڑی وجہ ماضی میں ہونے والی میگا کرپشن اور جعلی منصوبوں کے نام پر فنڈز کا بہت بڑا حصہ لندن ٹرانسفر ہوجانا بھی تھا - ماضی میں بلدیاتی معاملات چلانے کیلئے جو بھی رقم مخصوص ہوتی تھی وہ بلیہ عظمی کے پاس آجایا کرتی جو کونسلرز اور اضلاعی چیرمینوں کو ایک طے شدہ فارمولے سے تقسیم کردی جاتی تھی - جس کی بنیاد پر وہ اپنے علاقوں میں ترقیاتی کاموں پر خرچ کرتے تھے - نعمت اللہ خان کی بلدیہ میں ہر چیرمین اور کونسلر کو چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو ، ترقیاتی کاموں کے لئے رقم برابری کی بنیاد پر دی جاتی رہی - لیکن بعد میں آنے والی بلدیا تی حکومتوں نے مخالف امیدواروں اور منتخب نمائندوں کو ایک پائی کی رقم بھی ٹرانسفر نہیں کی - جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو حزب مخالف کے علاقے تھے وہاں ترقیاتی منصوبے دھول اور خاک چا ٹتے رہے - اور جو علاقے حزب اقتدار کے پاس تھے ان میں ترقیاتی کاموں کے نام پر لوٹ مار اور بدعنوانی کی انتہا کردی گئی - چورنگی توڑنے اور چورنگیوں کو تعمیر کرنے میں کئی سو کروڑ روپے کے اخراجات ظاہر کئے گئے - پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے انتخابات سے بہت پہلے ہی انتظامی و مالی اختیارات بلدیہ سے واپس لے لئے تھے اور ان کو صوبائی منسٹری کی جانب موڑ دیا گیا تھا - ان حالات میں انتخابی عمل شروع ہوا اور نتیجہ سب کو معلوم تھا کہ اگر وہی بلدیہ منتخب ہوتی ہے جو لندن سے احکامات لیتی رہی ہے تو ترقیاتی پروجیکٹس کا حال برا ہی ہونا ہے - اور اب اسی بات کا رونا رویا جارہا ہے جس کی پیش گوئی کی جارہی تھی - موجودہ مئیر کراچی نے بھی رہائی کے بعد اختیارات کی بحالی کا رونا رویا ہے - موجودہ مئیر سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ اختیارات کی ونڈو تو الیکشن سے پہلے ہی بدل چکی تھی -- اور اپ کی پارٹی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فنڈز اب کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز ریلیز کریں گے - ان سب معاملات اور ایس او پیز کو جانتے ہوئے بھی آپ نے انتخابات میں حصہ لیا - اس وقت ہی یہ اعترا ض داخل کرتے اور اس نظام کے تحت ہونے والے انتخابات پر اپنے تحفظات کا اظہا ر کرتے - لیکن آپ کی پا رٹی "بوجوہ " اس پر خاموش رہی - اب اختیارات کی کمی کا رونا رو نے سے کیا فائدہ ؟؟؟ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سے آپ کی لندن قیادت مکمل رابطے میں تھی اور اقتدار میں مکمل طور پر شریک بھی - لہذا رونے پیٹنے کے بجائے اپنی کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں - شہر سے گندگی کے ڈھیروں کو ٹھکانے لگائیں اور ترقیاتی کاموں کی سمری بنا کر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو پیش کریں تاکہ شہر میں آپ کا امیج بہتر ہو سکے

Comments

Post a Comment