سید محمد جمال الدین افغانی ( چھٹا حصہ ) تحریر : نجیب ایوبی

جیسا کہ گزشتہ مضمون میں ذکر کرچکے ہیں کہ مصر میں جن دنوں اعرابی پاشا کی تحریک زوروں پر تھی۔ برطانوی سرکار نے سمجھا کہ سید صاحب کا ہندوستان میں آزاد رہنا مصر کی تحریک کی سوزش کو کہیں مزید تیز نہ کر دے لہٰذا آپ کو حیدر آباد دکن سے کلکتہ لا کر نظربند کر دیا گیا۔ جب اعرابی پاشا کی شورش ختم ہو گئی تو برطانیہ نے از خود سید صاحب کو آزاد کر دیا۔ یہاں سے آپ نے روس افغانستان اور ایران کے درمیان ایک مشترکہ محاذ جسے آج کی زبان میں ورکنگ ریلیشن شپ کہہ سکتے ہیں ، قائم کرنے کی غرض سے روس کا سفر کیا اور تینوں قوتوں کو با ور کروایا کہ اگر ایران اور افغانستان روس کے ساتھ ملکر ایک مشترکہ بلاک بنانے میں کامیاب ہوگئے تو انگریز کے بڑھتے ہوئے قدم رک سکتے ہیں - اس کے لئے جمال الدین افغانی دوبارہ لندن گئے اور 1891ءمیں سفیر ایران پرنس ملکم خان اور پروفیسر براﺅن سے ملے- یہاں ایک مضمون کا حوالہ ضروری ہے جس میں آپ نے اپنے خیالات کو رقم کیا ہے جمال الدین افغانی کے خیال میں" ایران اور افغانستان اگر مل جل کر ایک متحد بلاک بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سارے اسلامی حلقوں کو مشرق میں ایک نئی قوت مل جائے گی - جس سے افغانیوں ، ایرانیوں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جائے گی - ان کی عظیم الشان امیدیں ازسرنو زندہ ہو جائیں گی -اور اسلام کی روح کو ایک تازہ و جاں بخش توانائی حاصل ہو جائے گی - " اپنے اسی معرکتہ الآ را مقالے میں آپ نے ملت اسلامیہ کی کمزوری کی نشان دہی فرماتے ہوئے لکھا کہ " امراء و سلاطین کے باہمی تنازعات نے ملت اسلامیہ میں اختلاف و افتراق اور تشتت و انتشار کے بیج بوئے ، یہ امرا و سلاطین آپس کے جھگڑوں میں مصروف ہوئے اور اغیار کو مسلمانوں پر دست درازی کرنے اور ان کے حقوق کو پامال کرنے کا موقع مل گیا - خواہشا ت کی پیروی میں مسلمان سلاطین صراط مستقیم سے ہٹ گئے اور سلطنت و امارت کی ظاہری شان و شوکت کے نشے میں مست ہوکر مدتوں تکبر اور خود آرائی کی تاریکیوں میں بھٹکتے رہے - مزید لکھتے ہیں " اسی روش نے اندلس کے مسلمانوں کا خاتمہ کیا اور اسی نے ہندوستان میں تیموری سلطنت کی بنیادوں کو متزلزل کیا جس کے کھنڈروں پر آج انگریزوں نے اپنی حکومت کی مضبوط عمارت قائم کر رکھی ہے " ( حوالہ مقالہ - اتحاد اسلامی - از جمال الدین افغانی ) مسلمانوں کے زوال کا علاج تجویز کرتے ہوئے آپ نے لکھا کہ " حکومت اسلامیہ کے قیام و استحکام کیلئے " اتفاق " پر یقین رکھنے کی ضرورت اتنی بدیہی ہے کہ اسے سیکھنے سکھانے کیلئے کسی معلم کی ضرورت ہے نہ کسی تفصیل و توضیح کرنے والی کتاب یا کثیر الاشاعت رسالے کی حاجت ! آپ نہایت دلسوزی و دردمندی کے ساتھ رقم طراز ہیں اور کہتے ہیں کہ " کاش یہ گمراہ جاگیردار اور نواب ، یہ وقار اور عزت کے لالچ میں ڈوبے ہوئے انسان مسلمانوں میں پیدا ہی نہ ہوتے - اس وقت مشرق سے لیکر مغرب تک مسلمان آپس میں متحد ہوجاتے اور سب کے سب ایک اسلامی آواز اور متحدہ اعلان پر لبیک کہتے ہوئے ایک مرکز پر آجاتے - آپ نے تجویز کیا کہ مسلمانوں کی اپنی حفاظت کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے- 1-ان تدابیر کو اچھی طرح سمجھ لینا جن کے ذریعے خطرات کی مدافعت کی جاسکتی ہے - 2- خطرات پیش آتے ہی ان کی مدافعت میں ہمہ تن مشغول ہوجانا اور اس مہم میں اتفاق رائے سے کام لینا - 3 - آنے والے خطرات کا حقیقی احساس کرکے باہم ہمدردی رکھنا اور اخوت کے رشتے میں منسلک ہوجانا - اتحاد امت اسلامیہ کی ترغیب دیتے ہوئے نہایت درد مندی سے کہتے ہیں کہ " اب ہمارا اولین فرض ہے کہ ہمتوں کو پست کرنے اور قومی حس کو عمل سے روکنے کے ذمہ دار وہ شراب کے متوالے ہیں جو لذیذ غذاؤں ، نرم نرم ریشمی بستروں ، فلک پیما عمارتوں ، خدمت گزاروں اور حاشیہ نشینوں کے انبوہ کثیر کے شوق میں فکر و فردا سے با لکل بے نیاز ہو بیٹھے ہیں، وہ جشنوں اور تقریبات کے موقع پر بڑی بڑی مجلسیں قائم کرکے صدر نشین بنتے ہیں ، جھوم جھوم کر سر ہلاتے اور شانوں کو حرکت دیتے ہیں - یہ اخلاق سے گرے ہوئے لوگ ان بوسیدہ رسوم کے وہمی تخیل میں محو ہوکر کسی گراوٹ کو بھی قبول کرنے میں دریغ محسوس نہیں کرتے - یہ لوگ اپنے گھروں میں دشمنوں کی ایسی ایسی ریشہ برداشت کرلیتے ہیں جنہیں کوئی غیرت مند انسان موت کی حد تک پہنچے بغیر برداشت نہیں کرسکتا " جمال الدین افغانی کا یہی انداز فکر اور انقلابی پیغام تھا جو دنیا بھر کے جرائد میں متواتر شایع ہوتا رہا اور ان کے گرد ان کے مداحوں کا ایک وسیع حلقہ بنتا چلا گیا - ان کے اس انقلابی پیغام کا خلاصہ اسی مقالے میں کچھ اس طرح بیان ہوا ہے " اے بہادروں کی یادگار مردو ! اے سورماؤں کے جانشینو ! اے سرداروں کے وارثو ! کیا تمھارے اقبال کا دور با لکل ختم ہوچکا ہے ؟ کیا تلافی مافات کا موقع ہاتھ سے نکل چکا ہے ؟ کیا ناامیدی کی گھڑی سر پر آگئی ہے ؟ نہیں نہیں ! معاذ الله ! زمانہ کبھی تم سے ناامید نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہاں سے پشاور تک جو اسلامی مملکتیں پھیلی ہوئی ہیں جن کی سرحدیں ایک دوسرے سے متصل ہیں وہ قرآنی دستور کی ایک اجتماعی وحدت میں منسلک ہیں ، تعداد میں ان کے باشندے 20 کروڑ سے کم نہیں ، شجاعت و بہادری میں وہ سب زمانوں اور قوموں میں ممتاز ہوتے چلے آئے ہیں ، پھر کیا یہ ان کا کام نہیں کہ وہ بھی دیگر اقوام کی طرح یکدل ، یک زبان ہوکر اعدا کی مدافعت اور ناموس قومی کے وقار کے لئے آپس میں اتفاق کرلیں - یہ اتحاد و اتفاق موجودہ وقت میں اور بھی زیادہ اہم ہوگیا ہے ، ضرورت اور احتیاط کا تقاضہ ہے کہ با ہم ایک ہوجاؤ اور یاد رکھو یہی اتفاق کا وقت ہے - یاد رکھو زمانہ مہلت دے دے کر تمہیں ممنون کررہا ہے ، ان مہلتوں اور فرصتوں کو غنیمت سمجھو ان سے فائدہ اٹھانے میں ذرا سستی نہ دکھاؤ - رونے پیٹنے سے مردے زندہ نہیں ہوتے ، افسوس کرنے سے گیا وقت لوٹ کر واپس نہیں آتا ، رنج وملال میں پڑے رہنے سے مصیبت نہیں ٹلتی ، کامیابی کی کنجی حرکت اور عمل میں ہے ، صداقت اور راست بازی کامیابی کا زینہ ہے ، ڈ ر اور خوف ناامیدی اور پستہ ہمتی کو قریب لاتے ہیں اور یہی نامیدی اور پست ہمتی موت کا سبب بنتی ہے " جمال الدین افغانی کے خیالات اور مضامین انہی عنوانا ت سے تمام یوروپ بشمول برطانیہ ، پیرس ، ایران ، مصر ، افغانستان اور ہندوستان میں پہنچتے رہے ، یہ مضامین ، اتحاد امت ، اتحاد و سیادت ، پیغام اخوت ، دعوت اتحاد ، اقتدار ، نصرانیت و اسلام ، قضاء و قدر ، سیاست - اسلام اور وطنیت، اجتما عیت کا اسلامی دستور ، مسلمانوں کا ماضی اور حال اور انکے امراض کا علاج ، شرف ، نیک نامی کی تمنا ،فضائل و رذائل ، مسلمانوں کا تنزل و جمود ، حفاظت حکومت ، امید ، عمائد سلطنت ، اپنے بیگانے ، ہندوستانی نیچری ، کہاوت وغیرہ کے عنوانات سے لکھ گئے - جن کی قرآنی حوالوں استدلال اور مستند تاریخی حوالوں سے نصرانیت و فرنگی سازشوں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ امت مسلمہ کے حکمرانوں پر سخت ترین گرفت بھی کی گئی - دوسری طرف اجتماعی طور پر امت کو بیدار ہونے، متحد ہونے اور باطل نظاموں کے خلاف آٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب بھی دی جاتی رہی - یہ وہی دور تھا جب حکومت برطانیہ اور مصر کی حکومت کے درمیان ان بن چل رہی تھی ، جس کی سب سے بڑی وجہ مصر میں مہدی سوڈانی کی تحریک تھی - یہ 1884 کے شروع کا زمانہ تھا ، جب مہدی سوڈانی کی تحریک پورے جوبن پر تھی ، انگریز سرکار نے اس فرو کرنے کی غرض سے جنرل گارڈن کو خرطوم بھیجا ، خرطوم میں مہدی سوڈانی کے دستوں نے جنرل گردن کا محاصرہ کرلیا -1885 میں جنرل گارڈن اپنے سپاہیوں سمیت مارا گیا - اور خرطوم پر مہدی سوڈانی کا قبضہ ہوچکا تھا - آپ کے مضامین نے یوروپ کے مسلمانوں سمیت تمام اسلامی ممالک میں ایک بیداری کی لہر پیدا کردی تھی -سید افغانی مساجد کو تحریک اسلامی کے مراکز بنا دینے کے خواہش مند تھے اور اصلاح امت کے ذریعے حقیقی تبدیلی کے خواہشمند تھے - سید جمال الدین افغانی کے لیے اسلامی اتحاد کا حصول اہم ترین مقصد حیات تھا۔ اسی مقصد کی خاطر ترکی کے سلطان عبدالحمید کی دعوت قبول کی اور استنبول کو اپنی سرگرمیوں اور امیدوں کا مرکز بنایا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں آپ سمجھتے تھے کہ وہ اسلام کے شیدائی ہیں۔ دین و ملت کی حمایت و حفاظت کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے اور ایثار کا جذبہ دکھانے کے ہمیشہ متمنی رہتے ہیں۔ ۔ وہ عالم اسلام میں خلافت کی مرکزیت کے پرزور پیامبر تھے۔ اس مقصد کے لئے وہ عالموں‘ خطیبوں اور تمام محبان ملت کا پرزور اور پرخلوص تعاون چاہتے تھے۔ ترکوں کیخلاف روس کی جارحیت کو سید افغانی نے ہمیشہ زبردست خطرہ محسوس کیا وہ اس حقیقت سے باخبر تھے کہ روسی جارحیت اسلام کے لئے زبردست خطرہ ہے۔ وہ ترکی کیخلاف حالت جنگ میں ہے اگر وہ سلطنت عثمانیہ کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوگیا تو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ دونوں کا دفاع مسلمانوں کے لئے ناممکن ہوجائے گا۔ مگر سلطان ترکی افغانی کے خیالات سےکھلے دل سے متفق نہ ہوئے - ایران افغانستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کے اتحاد کے لئے ہمہ وقت کوشاں و تیار رہے - ایران کے شاہ نے بھی آپ کی اس کوشش کا مثبت جواب نہیں دیا ، اس کا جھکاؤ ہمیشہ انگریز کی طرف رہا - جبکہ ایران اور افغانی اتحاد کے بارے میں سید افغانی کی سوچ بہت واضح تھی آپ کا خیال تھا کہ ایرانیوں اور افغانیوں کو اپنے باہمی اتحاد کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہئے۔ یہ دونوں قومیں ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں اور ایک ہی اصل ۔ یعنی پرانی فارسی کے دو شعبے ہیں اگر ایران اور افغانستان میں اسلامی اتحاد کا رشتہ مضبوط ہوجائے تو سارے اسلامی ملکوں کو ایک نئی اسلامی قوت حاصل ہوجائے گی۔ ترکی اور ایران کے اختلافات کے بارے میں سید افغانی سمجھتے تھے کہ ایک عالم گیر خلافت اسلامیہ کے قیام کی راہ میں ترکی اور ایران کے اختلافات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں یہ اختلافات محض سیاسی نہ تھے بلکہ انہیں مذہبی رنگ بھی دے دیا گیا۔ سید افغانی یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ شاہ ایران کو شیعوں کا بادشاہ مانے اور شاہ ایران اہالیان حنفی مسلک کو تمام ملت اسلامیہ کا خلیفہ تسلیم کرلے۔ مگر بدقسمتی سے دونوں حکمرانوں کے لئے یہ تجویز ناقابل قبول ہی رہی - اسلامی جمعیت اقوام کے حوالے سے جو کوششیں جمال الدین افغانی نے جاری رکھیں اس نے انہیں عالم اسلام میں ممتاز اہمیت کا حامل رہنما بنادیا آپ اتحاد اسلامی کو فروغ دینے اور مسلمانوں کو سامراجیوں کے ظلم و ستم سے بچانے کی غرض سے مسلمان ملکوں کا ایک بین الاقوامی ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے جسے اسلامی جمعیت اقوام کا نام دیا جانا تھا۔ اسلامی ممالک کے اجتماعی تحفظ کی تجویز علامہ افغانی کی سیاسی بصیرت اور پرخلوص فکر کا ثبوت ہے۔ مصر کے بارے میں علامہ افغانی کی رائے بہت دو ٹوک تھی - مصر خلافت عثمانیہ کے اقتدار باہر تو نکل آیا مگر اس کے بعد برطانوی شکنجے میں گرفتار ہوگیا۔ جمال الدین افغانی یہ چاہتے تھے کہ مصر میں آزاد اسلامی حکومت قائم کرکے اسے مرکز خلافت سے وابستہ کردیاجائے تاکہ مصری حریت پسند خلافت اسلامیہ میں شامل ہوکر اسلامی طاقت میں اضافہ کردیں۔ (جاری ہے )




Comments