کراچی کا امن اور بوتل کا جن --- تحریر: ڈاکٹر صغیر افضل


کراچی شہر اپنے جغرافیائی محل و وقوع کے اعتبار سے اور ملک کی معیشت کے حوالے سے پاکستان کا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اہم مقام کا حامل ہے - یہاں کی دو بندر گاہوں پورٹ قا سم اور کیماڑی ٹرمینل سے پورا پاکستان استفادہ حاصل کر رہا ہے - بات پاکستان ہی کی نہیں بلکہ اب تو نو آزا د روسی ریاستیں اور افغانستان بھی ان بندرگاہوں کے فوائد سمیٹ رہا ہے - ان ممالک کی بیشتر ضروریات کا دار و مدار اس راستے سے آنے والے سامان پر ہے - پاکستان کے اس شہر کے موسم کی طرح اس کی سیاست انحصار بھی بیرونی عوامل پر ہے - بلکہ اس کی معیشت اور سیاست پر غیر ملکی اسٹیک ہولڈرز کا بھی برابر کا قبضہ ہے - کراچی کی حکومت اور سیاست کو غیر ملکی سیاست اور مفادات سے الگ کرکے سمجھا ہی نہیں جاسکتا - جو احباب اس خوش فہمی میں ہیں کہ کراچی پر صرف کراچی والوں کا حق ہے وہ غلط اندازہ لگا رہے ہیں - کراچی ابتداء میں کچھی اور مکرانی برادری کا شہر تھا ان میں اندرون سندھ کے متمول ہندو تاجر اور بنئے بہ کثیر تعداد میں کاروبار کی غرض سے موجود تھے - ہندؤں کی کئی کالونیاں موجود تھیں اسی طرح پارسی اور خوجے بیوپاری خاندان بھی تھے - گو کہ یہ اکثریت میں نہیں تھے پھر بھی کاروبار اور شپنگ کی صنعت پر ان کی اجارہ داری تھی - قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے کراچی ، نواب شاہ ، میرپور خاص ، سکھر اور حیدرآباد میں سکونت اختیار کی کچھ واہگہ بارڈر کے ساتھ لاہور کے والٹن کے کیمپ میں رہ کر لاہور میں ہی بس گئے کچھ اپنے عزیزوں اور یہاں سیٹ ہوجانے والے لوگوں کے پاس کراچی چلے آئے - اس طرح آبادی کا تناسب شہر کی حد تک اردو بولنے والوں کے حق میں آگیا - آھستہ آھستہ شہر نے ترقی کے مدارج طےکئے اور پاکستان کی معیشت میں اپنا اہم مقام -ہر قسم کی صنعت یہاں موجود تھی - فشری اور ماہی گیری سے آگے بڑھ کر چھوٹے بڑے کارخانے اسٹیل مل ، پورٹ ریلوے ، ڈولپمنٹ اتھارٹیز اور رہائشی اسکیمز سب وجود میں آتی چلی گئیں - دیگر صوبوں میں کاروبار اور ملازمتوں کے مواقع نہ ہونے کے سبب وہاں کے لوگ بھی اس بڑے شہر کا رخ کرنے لگے ، تعلیمی ادا روں میں تعلیم کی غرض سے بھی بہت سے افراد یہاں آگئے - بلاشبہہ اس شہر کی ترقی میں اردو بولنے والوں کا بہت نمایاں کردار رہا ہے - لیکن یہاں کی عمارتوں کی تعمیر اور دیگر کاموں میں اور صوبوں سے آنے والوں کی محنت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا - سال ہا سال سے مردم شماری نہیں ہوئی ہے ، اب اگر اچانک مردم شما ری ہوئی تو ڈرتا ہوں کہ یہ خوش فہمی بھی دور نہ ہو جائے کہ یہ مہاجر اکثریتی شہر ہے - 1980 تک یہ شہر پورے پاکستان کا مشترکہ شہر کے طور پر جانا جاتا رہا - لیکن اس کے بعد ضیاء الحق کے مارشل لاء کی فیوض و برکات تھیں اور مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے آنے والے مشرقی پاکستانیوں کی ہجرت کے سبب مہاجر شناخت کا شہر بنتا چلا گیا - یہ سب یونہی نہیں ہو گیا تھا - ایک بہت منظم منصوبہ بندی کے سبب وہ حالات پیدا کئے گئے جن کو بنیاد بنا کر سندھی ، مہاجر اور پٹھان کو علیحدہ اکا ئیوں میں تقسیم کیا گیا -
وہ حالا ت کیا تھے ؟ جن کی میں بات کر رہا ہوں ان کو ایک ایک کرکے ٹھنڈے دل و دماغ سے سمجھنے کی ضرورت ہے - اول تو سندھی مہاجر کا جھگڑا موجود ہی نہیں تھا - جی ایم سید جو عیلحدگی پسند تحریک کے بانی قرار دے جاتے ہیں ، پاکستان کے قیام اور قا ئد اعظم کے میزبان بھی رہے پاکستان کی قرارداد اور کراچی کو سندھ کے ساتھ شامل رکھنے میں آپ کا ووٹ اور رائے بہت اہمیت کی حا مل تھی
 

کو سندھ میں محرومیوں کی بنیاد پر سندھی حقوق کا ترجمان بنا کر پیش کیا گیا - نظر بندی اور گرفتاریوں نے سندھی قوم کو پاکستان مخالف گروپ میں تبدیل کرنا شروع کیا اور ان کے نوجوان اردو بولنے والے نوجوانوں کو اندرون سندھ میں شدید نفرت کا نشانہ بناتے رہے - اس کے رد عمل میں کراچی کے طلباء میں بھی ایک ری ایکشن کی فضاء کو پروموٹ کیا گیا - ایسے میں جاہلانہ طرز فکر متعارف کروایا گیا جس کی رو سے تعلیم میں غیر منصفانہ کوٹہ سسٹم رائج کیا گیا - یہ سسٹم بھٹو صاحب کی حکومت اور ذہن کی اخترا ع تھا - جس کو ضیاء صاحب کے مشیر وں نے خوب ہوا دی - جب مذہبی جماعتوں نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف آواز اٹھانے کی ابتداء کی تو لامحالہ انھوں نے مذہبی جماعتوں کی شہر میں اجارہ داری کو روکنے اور توڑنے کا فیصلہ کیا - دو جماعتیں جن میں جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی ایسی تھیں جن کا شہر کراچی میں عمل دخل تھا - ان کے نمائندے بلدیہ اور اسمبلی میں موجود تھے - تیسری پارٹی بھٹو کی تھی جس کو اکثریت تو حاصل تھی مگر کراچی میں دو سے تین قومی سیٹیں حاصل تھیں - سب سے پہلے کراچی میں جمعیت علمائے پاکستان نورانی میاں کو سزا دی گئی اور ان کی پارٹی کے تین دھڑے بنا دے گئے ، ظہور الحسن بھوپالی - حافظ تقی ، حاجی حنیف طیب، دوست محمد فیضی سب کو پارٹی سے الگ کرکے دھڑا بنایا - پارٹی کی قوت ٹوٹ چکی تھی - لے دے کر نورانی صا حب کے پاس صرف شاہ فرید الحق باقی بچے - باقی پارٹی نے مارشل لاء پر بیعت کرلی - جماعت اسلامی پر بھی بہت ڈورے ڈالے میاں طفیل مرحوم سے ماموں بھانجے اور گرائیں ہونے کا واسطہ دیا گیا - مجبور ہوکر جماعت اسلامی نے اجتہاد کرکے شوری میں جانے کا فیصلہ کرلیا ، طفیل محمد کی امارت میں وزیر بھی بنے - مگر جلد عقل آگئی اور وزارتوں سے استعفی دے کر چھ ماہ میں با ھر نکل آئے - اس ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات کروائے گئے اور مکمل مارشل لائی مشنری استمعال ہوئی جس میں مذہبی جماعتوں کے بوریا بستر لپیٹنے کے عمل کو آخری شکل دی گئی - ان کے مقابلے پر سندھ کے شہری علاقوں میں نوجوان اور لبرل قیادت جو مہاجر حقوق کے نام پر جدوجہد کر رہے تھے آگے لایا گیا - سندھ کے دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی اپنی جگہ مضبوط رہی اور شہری علاقے میں مہاجر شناخت کے نمائندوں پر مہر تصدیق ثبت کی گئی - یہ سب مارشل لاء کے اقتدار کو تحفظ دینے کا عمل تھا جس میں ہمیشہ کے لئے لسانی بنیادوں پر معاشرے کو تقسیم کیا گیا - مارشل لاء کیوں ضروری تھا ؟؟؟؟ یہ وہ دوسرا ملین ڈالر سوال ہے جس کی وضاحت بہت ضروری ہے - مارشل لاء اس لئے ضروری تھا کہ پاکستان کا گرم پانی یعنی کراچی اور مکران کا سمندر روس کی نظروں میں آچکا تھا - افغانستان میں عملا روس کی افواج آچکی تھیں - اور پاکستان کی بارڈر کراس کرنے میں صرف دو دن اور چار گھنٹوں کی جنگ کی دوری تھی -( کم از کم روس کو یہ خوش فہمی ضرور تھی ) پاکستان میں ولی خان نے باب خیبر اور اٹک کے پل پر ان افواج کا استقبال کرنے کی تیاری بھی کرلی تھی - افغانستان میں روس کو انگیج کرنے کے لئے پاکستان میں مارشل لاء کی صورت میں امریکہ کو صرف ضیاء الحق سے ہی ڈیل کرنا تھا - اگر یہاں ضیاء کی جگہ جمہوری حکومت ہوتی تو امریکا کو کئی جماعتوں اور خاص طور پر مذہبی جماعتوں سے ڈیل کرنا پڑتا - چناچہ امریکا کو یہی سوٹ کرتا تھا کہ یہاں فرد واحد کی حکمرانی ہو - راتوں رات مارشل لاء کا منصوبہ بنا اور ضیاء اور الحق مسند اقتدار پر قا بض ہوئے اور پھر روس کو افغانستان میں ہی گھیر لیا گیا - یہ وہ نازک وقت تھا جب جماعت اسلامی کی قیادت نے روس استعمار کا راستہ روکنے اور افغانستان میں پہلے سے موجود اس؛لمی ذہن رکھنے والی قوتوں کا دینے کا فیصلہ کیا- افغان جہاد شروع ہو جانے کے ساتھ ہی مکمل طور پر اس جہاد کی پشت بان بن گئی -جب افغان مجاہدین کو کامیابیاں ملنی شروع ہوئیں تو امریکہ بھی کمر باندھ کر ان کی مدد کو ان پہنچا- ظاہر ہے امریکہ کے پیش نظر اسلامی انقلاب کا قیام تو تھا نہیں البتہ اس کی کوشش یہ ضرور تھی کہ اسلامی انقلاب کے ثمرات کو آگے پھیلنے سے روکے- اور پھر روس اپنے انجام کو تو پہنچا ہی مگر ساتھ ہی ساتھ ضیا الحق اپنی پوری ٹیم کے ساتھ " پار " لگا دئے گئے - اس کے بعد جمہوریت واپس آئی مگر بیرونی قوتوں سے معا ملہ کرنے کے بعد ! جس میں پہلے سے یہ ضمانت دی گئی تھی کہ اب روس ٹوٹ چکا ہے لہذا جہاد وھاد سب ختم - مذہبی انتہا پسندی کی جگہ سیکولر سوچ کوآگے بڑھایا جائے گا - اس اندروں خانہ معا ئدے کو عملی شکل دیتے ہوئے جمہوریت بھی چلتی رہی اور جہاد کے اثرات کو بھی زائل کیا جاتا رہا - جما عت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں شہر میں رجسٹریشن کی حد تک موجود رہیں مگر شہر کی شناخت مکمل طور پر مہاجر بن چکی تھی - اس کے با وجود بھی مولانا سید مودودی کی نظریاتی فکر کا کمال تھا کہ جماعت ا سلا می شہر میں پوری قوت کے ساتھ انتخابی عمل میں شریک ہوتی رہی - جب جب اس کے جیتنے کی کوئی بھی امید بنتی اس کو کسی نہ کسی بہانے سے بائیکاٹ پر مجبور کردیا جاتا - ان حالات میں بھی بلدیاتی سطح پر دو مرتبہ جماعت اسلامی نے اپنی بلد یا تی حکومت بنائی - مگر اس کو راستے سے ہٹانے کا عمل جاری رہا - مزے کی بات یہ ہے کہ جن حقوق کے نام پر مہاجر کارڈ کھلا گیا - آج تک ہمت نہیں کہ وہ ان منتخب ہونے والے نمائندوں سے یہ پوچھے کہ بھایوں آپ نے کونسا کام ایسا کیا ہے جس کی بنیاد پر آپ مہاجروں کے حقوق کے رہے ہو ؟ کیا کوٹہ سسٹم ختم ہوگیا ؟ مہاجر نمایندے تیس سال سے ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں صوبے اور مرکز کی اہم وزارتیں آپ کے پاس رہیں - آپ چاہتے تو کوٹہ سسٹم کی لعنت کا کب کا خاتمہ ہوچکا ہوت مگر آپ کی دستخط سے اس کی مدت میں توسیع بھی ہوئی - حیدر آباد اور کراچی میں کون سی نئی درسگاہ قائم ہوئی ؟؟؟ کون سا نیا سرکاری ہسپتال بنایا گیا ؟؟؟ سرکاری ملازمتوں میں مہاجروں کو کونسا حصہ ملا ؟؟؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایک پوری نسل کو بھتے اور لوٹ مار پر لگا دیا گیا ہزاروں نوجوانوں کو جان سے مار دیا گیا پہلے والوں کو ملک بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر اب مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک راتوں رات اتنا امن کیوں قائم ہوگیا - ؟؟؟ غنڈ ہ گردی ، لوٹ مار ،قتل غارت گری کا عفریت بوتل میں کیسے بند ہوگیا ؟؟؟
 
س کا جواب بھی سن لیجئے یہ جو سی پیک ہے ، چائنا پاکستان راہداری سلک روڈ کا معاملہ - اس کی شق ہے کہ پاکستان چائنا کو مکمل تحفظ فراہم کرے گا - ایک پی کی بھتہ گیری برداشت نہیں کی جائے گی - ہمارے کسی انجنئیر کو یرغمال نہیں بنایا جائے گا - کوئی تا وان نہیں دیا جائے گا- جب چائنا نے اس ڈیمانڈ پر ضمانت کے لئے وزیر ا عظم نواز شریف کو اپنے پاس بلایا تو متحدہ کی قوت سے ڈر کر وہ کوئی ضمانت نہیں دے سکے -
 
 اس لئے کہ متحدہ کے وجود سے ان کی حکومت کو دوام تھا - اس انکار کے بعد چائنا نے راحیل شریف کو اپنے پاس بلایا جنہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ چائنا کو تمام تر یقین دہانی کروائی - دیکھئے اس کے بعد سے بوتل کا وہ جن جو بوتل سے باہر نکل کر سر چڑھ کر ناچ رہا تھا کس خوبصورتی اور معصومیت کے ساتھ نہ صرف واپس بوتل میں بند ہوگیابلکہ ڈھکنا بھی اپنے ہی ہاتھ سے لگایا - پاکستان متحدہ تو بوتل میں جا چکی مگر امریکہ اور برطانیہ متحدہ اپنا دم خم دکھا رہی ہے - اور اس وقت تک دکھاتی رہے گی جب تک سی پیک پر امریکی و مغربی تحفظات کھل کر سامنے نہیں آجاتے -


Comments