ٹیکس چور سراج الحق ; تحریر : ظفراقبال

ٹیکس چور سراج الحق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ تاثر جو عبدالمالک، عمر چیمہ اور حامد میر نے ٹی وی دیکھنے والوں پر چھوڑا ہے۔
ٹی وی اب وہ ذریعہ ہے جس سے بیشتر لوگ دماغ کی بجائےسوچنے اور کسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔ سراج الحق صاحب کو تھوڑا بہت ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں اور یہ گواہی دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ان جیسا کھرا ،احیائے اسلام کے لئے ہمہ تن مصروف فرد ان میڈیائی بلاؤں کے تصور میں بھی ممکن نہیں۔سراج الحق صاحب ان کارکنوں میں سے ہیں جن کو شروع سے ہی جماعت نے کل وقتی کارکن کی حیثیت سے سارا وقت جماعت کے لئے مختص کرنے کی درخواست کی جو انہوں نے قبول کی۔ ان کا ذاتی کوئی کاروبار ، جائیداد سے کرایہ اور آبائی وراثت جو ان کے گھر کو چلا سکے نا ہونے کی وجہ سے جماعت نے ان کے گھر کا معمولی وظیفہ مقرر کر دیا۔ جس سے ان کے اہل خانہ کا گزارہ ہوتا ہے۔ وہ اس پر راضی اور خوش ہیں۔ اور کسی دنیاوی آسائش کے متمنی نہیں۔ان کا بچپن ایسا گزرا کہ اپنے علاقہ دیر میں گاؤں سے کئی کلومیٹر دور اسکول جانے کے لئے جوتے کے بغیر پیدل جاتے۔طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے اور اسلامی جمعیت طلبہ سے انہوں نے انسانی اقدار ، تنظیم اور اسلامی کردار کی تعلیم حاصل کی اور ایک کامیاب کارکن ثابت کیا۔ اپنی صلاحیتوں اور اخلاص کی وجہ سے بہت جلد اپنے ضلع کے ناظم بنائے گئے۔پھر صوبہ سرحد اور بعد میں پاکستان کے ناظم اعلی منتخب ہوئے۔ تعلیم کے بعد فوراً جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔اور وہ بھی کل وقتی کارکن۔ان کے ذاتی دوست ، پڑوسی اور سیاسی مخالف تک ان کی صورتحال سے واقف ہیں۔۔۔اس دوران وہ ایک بار کراچی آئے تو ان کو عرق النساء کی تکلیف کی وجہ سے ایم آر آئی کراوانا پڑا۔ ہمیں معلوم تھا کہ یہ ایم آر آئی سراج صاحب کے لئے کروانا ممکن نہیں۔جماعت کے احباب نے کچھ انتظام کیا ۔ ہم نئے نئے ڈاکٹر بنے تھے اور ہماری تنخواہ سے بھی بالا رقم تھی ایم آر آئی کی۔کراچی کے سینئیر نیوروسرجن جناب آئی ایچ بھٹی صاحب کو دکھانے کے لئے گئے،تو بھٹی صاحب نے اس گمنام سراج الحق کی ادا کی ہوئی وزٹ فیس کاؤنٹر پر آ کر واپس کروا دی۔ یہ ہمارے لئے ایک بڑا “ریلیف” تھا۔سراج صاحب پر ان میڈیائی بد روحوں نے حملہ کیا تو یہ واقعات یاد آ گئے۔۔ سراج صاحب ایم ایم اے کے دور صوبائی حکومت میں بھی وزیر خزانہ رہے اور ایک بار لاہور دورہ پر آئے تو واپسی پر دورہ کے اخراجات سات سو روپے سے بھی کم جب سرکاری دفتر میں جمع کروائے تو لوگ پریشان ہو گئے۔ کیوں کہ اس مین پبلک بس کا کرایہ تھا اور بس۔ کھانا انہون نے لاہور مین جماعت کی میزبانی مین کھا لیا اور بس آڈے سے پک اینڈ ڈراپ جماعت والوں نے فراہم کر دی۔سرکاری میٹنگ میں شریک ہو کر واپس ہو لئے۔۔سرکاری کاغذات اور فائیلوں کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ کسی سابق وزیر نے ایسے ہی لاہور کے دورہ پر لاکھوں روپے کے اخراجات کا حساب جمع کروایا ہوا تھا۔۔ ممکن ہے یہ ناجانتے ہوئے یہ سب کرتے ہوں لیکن جو خفیہ کاغذ تک نکال لیتے ہوں یہ سب نہیں جانتے ہوں گے؟ لیکن یہ معلومات وہ پبلک سے شئیر کیوں نہیں کر سکتے ۔ کیا یہ ان کے پیشے کے معاہدے کے خلاف ہے کہ ایسا سچ نا آنے پائے جو شیطان کو نقصان پہنچا سکے۔۔کیا واقعی ان کے نزدیک اربوں وپے کھانے والے پیشہ ور سیاست دان وزیر اور اس کے مقابل سرکاری رہائش اور پروٹوکول سے آزاد سراج الحق ایک ہیں۔۔ چور اور سچوں کو ایک صف مین شامل کر کے یہ صرف ایک خدمت انجام دے رہے ہیں کہ “سب چور ہیں” تا کہ نئی نسل جو صرف ٹی وی سے سوچتی ہے اس کو غلط پیغام دیا جائے اور ان کی سیاسی سوچ میں غلط معلومات کو فیڈ کر کے من پسند نتائج حاصل کئے جائیں۔ یعنی اس مفروضے سے جان چھڑائی جائے کہ اس معاشرے میں ایماندار لوگ بھی ہیں۔یا حکمران ایماندار بھی مل سکتے ہیں۔ اس مفروضے کے خاتمہ کے بعد یہ کام آسان ہو گا کہ کون سے چور مناسب ہیں اس قوم کے لئے۔۔جدید دنیا نے دماغ کی جگہ ٹی وی چینلز کی پیوند کاری کر کے ذہنی غلامی اور اتباع کا اہتمام کر لیا ہے۔ایسے موقع پر کسی نظریہ کے حامل افراد اور تحریکوں کے لئے یہ ذرائع مستقل مزاحمتی کردار ادا کرنے پر مامور و مجبور ہیں۔ اور یہ کردار ان کے خالقوں اور رازقوں نے ان کے لئے طے کر دیا ہے۔اگر سراج الحق جیسے بے وسیلہ اور بے جائیداد فرد کے لئے یہ لوگ تاثر بنا سکتے ہیں تو ان میڈیائی ڈریکولاز چینلز کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں۔البتہ اللہ اپنی چالیں چلتا ہے یہ اپنے مکر کا سلسلہ کہاں تک لے جا سکتے ہیں یہ دیکھتے جائیں۔اس سلسلہ میں جماعت کی جانب سے ٹھنڈی ٹھنڈی تردید بھی مناسب نہیں۔بلکہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لے کر بھرپور جواب تیار کیا جائے جس کے لئے ظاہر ہے میڈیا پر جگہ نہیں ہو گی لیکن سوشل میڈیا سے اس کا مسکت جواب دیا جا سکتا ہے۔
ان اینکرز کو سراج الحق کی جائیداد ،بنک بیلنس ، مکان اور گاڑیوں کے بدلنے کی پیشکش کی جائے تو ان تینوں ۔۔(عمر چیمہ ، حامد میر اور عبدالمالک ) کی روح کانپ جائے گی۔۔سراج صاحب کے مکان ، ان کے کپڑوں کی الماری ان کے بچوں کے اسکول ان کے کپڑوں اور جوتوں اور رہن سہن کا تصور بھی ان کے لئے روح فرسا ہوگا۔۔تو کوئی ہے ایسا کیمرہ جو سراج صاحب کا گھر اور گاڑی اور ان تینوں کے گھر اور گاڑیاں اور طرز بود و باش اور بنک بیلنس کا موازنہ کر سکے؟؟؟ کوئی یہ ادھوری معلومات چوری کرنے والے صحافی کبھی قوم کو نہیں بتائیں گے کہ سراج الحق کی وزیر خزانہ کی تنخواہ سالانہ بنیادوں پر نہیں ماہانہ ، انکم ٹیکس کاٹ کر 24 ہزار روپے ادا کی جاتی ہے۔اور اس طرح انکم ٹیکس ادا نا کرنے کا کوئی امکان ہی نہیں۔ یہ چونکانے والی خبروں اور افواہوں کے دکان دار کبھی نہیں بتائیں گے کہ سراج صاحب کا طرز رہائش کیا ہے۔اور ان کی “جائیداد” کیا ہے۔ان کا کیمرہ سراج صاحب کے دروازے اور کمرے نہیں دکھا سکتا۔یہ اپنے ساتھی ولی بابر کے خون کو بیچ کر اس کے قاتلوں کی چاپلوسی کے ماہر کسی انسانی احساس سے بالکل عاری ہو چکے ؟ ان کے مقاصد ذلیل ان کے ارادے غلیظ۔۔

Comments