منہ کی فا ئرنگ : تحریر ؛ نجیب ایوبی

دیکھنا یہ ہے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ بیس سالوں سے یہاں کی مسند اقتدار کو انجوا ئے کرنے والی اور اپنے سیاسی مخالفین کو بوری میں بند کرنے والی جماعت متحدہ اور اس کے دھڑوں کے درمیان جاری الزامات کی لڑائی کس کروٹ بیٹھتی ہے؟ بظاھر تو ایسا لگتا ہے کہ کہ ایم کیو ایم لندن - ایم کیو ایم پاکستان (فاروق ستار گروپ ) اور پاکستان سرزمین پارٹی (مصطفیٰ کمال گروپ) کے درمیان جاری اس رسہ کشی میں شہر کی عوام کان نہیں دھر رہی ہے - لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے ؟ کہ عوام کو الطاف حسین سے علیحدہ ہوجانے والے دھڑوں سے کوئی سروکار نہیں ہے - پہلے تو یہ محاذ آرائی مصطفیٰ کمال کی جانب سے شروع ہپوئی - مصطفیٰ کمال جو بہت عرصے سے دبئی میں پاکستان کے بزنس ٹا ئیکون ملک ریاض ( بحریہ ٹاؤ ن ) کے ہاں ملازمت پر بطور چیف مارکیٹنگ ا یگز ئیوٹئیو مقیم رہے اور پھر حیدرآباد شہر کے ڈان انیس قائم خانی جو الطاف حسین کی پارٹی میں ایک اہم مقام رکھتے تھے ، انھوں نے بھی ملک ریاض کی کمپنی جوائن کرلی اور حیدرآباد میں ملک ریاض کی جانب سے لاؤنج کے جانے والے پروجیکٹ کی حفاظت کا ذمہ لیا - اسی طرح الطاف حسین اور مصطفیٰ کمال کے تعلقات میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب ٹھیکوں میں کمیشن کی چالیس فیصد رقم حسب وعدہ قائد تحریک کے اکاؤنٹ میں نہیں پہنچی - اس دوران کراچی کی رابطہ کمیٹی نے بھی مصطفی کمال کی شکایات اوپر پہنچانی شروع کیں -تنظیمی معاملات سے مصطفی کمال کو فورا علیحدہ کردیا گیا اور تمام کارکنان اور ہمدردوں کو ہدایات جاری کردی گئیں کہ مصطفی کمال سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھا جائے - مگر اس وقت تک مصطفی کمال کی پشت پر کسی کا ہاتھ رکھا جا چکا تھا - دو ماہ کی معطلی کے بعد ایک خاصی بڑی رقم مصطفی کمال نے متحدہ کے ایک اور سرکردہ رہنما رضا ہارون کی معرفت الطاف حسین کے حوالے کی اور مزید بھی دینے کا وعدہ کیا - بمشکل تمام سابق مئیر کرا چی مصطفی کمال نے اس عذاب سے جو " بوری " کی صورت میں آنکھوں کے سامنے تھا ، جان چھڑائی - حیدرآباد اور نواب شاہ میں بحریہ کے پروجیکٹ لاؤنج ہوچکے تھے - سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ ان پروجیکٹس کی جگہوں پر اسٹے آرڈر (STAY ORDER )نہ لے لئے جائیں اس لئے کہ یہ پروجیکٹس بہت سے شہری علاقوں کی الاٹ شدہ زمینوں پر تھے - یہی وہ مقام تھا جہاں سے مصطفی کمال بطور مڈل مین استعمال ہوئے ، ان ہی کے ذریعے سندھ میں متحدہ کے نامی گرامی رہنماء اور قائم خانی برادری کے جناب انیس قائم خانی کو توڑا گیا - اور ان کی بھی دبئی میں اسی کمپنی میں ملازمت دلوائی گئی جہاں مصطفی کمال پارٹنر بن چکے تھے - اب بحریہ پروجیکٹ مکمل طور پر محفوظ ہاتھوں میں تھا - یہاں سے قائد تحریک کے خلاف ایک بھرپور جوابی کاروائی کا نقشہ تیار کیا گیا - اور منی لانڈرنگ کے مقدمے میں مصطفی کمال اورضا ہارون کی اہلیہ کی جانب سے گاہے بگا ہے بھیجے جا نے والی غیر قانونی رقوم کےثبو ت بھی فراہم کے گئے - اور ساتھ ہی ساتھ میڈیا میں مائنس ون فارمولہ کی خبریں بھی چلوائی جاتی رہیں - لندن میں بیٹھے قائد تحریک انجانے ہاتھوں کی سازشوں سے آگاہ تھے اور اب ان کے پیمانہ صبر کو چھلکنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا - چناچہ وہی ہوا جو ہونا تھا - مائنس الطاف فارمولہ الطاف حسین کی نیندیں اڑانے کے لئے بہت کافی تھا - برطانیہ کی خفیہ ایجنسی نے اس نازک موقع پر " بھائی " کو تنہا نہیں چھوڑا اور اپنے مکمل تعا ون کا یقین دلاتے ہوئے " مزید " کچھ کرنے کا مطالبہ کیا - او ر پھر سب نے دیکھا اور سنا کہ پاکستان کے وجود سے انکار - گالیاں اور پاک فوج کی شان میں جس قدر زبان درازی ہو سکتی تھی کی گئی - پاکستان میں موجود متحدہ کے رہنما اپنے قائد کی جانب سے نشے کی حالت میں کہے جانے والے نامناسب الفاظ کی " یوں تھا، ووں تھا " ان کا مطلب تو " ایسا تھا ، ویسا تھا " کہہ کہہ کر عاجز آچکے تھے - عامر خان جو کچھ عرصہ پہلے نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے میں گرفتار ہو چکے تھے وہ بھی پارٹی میں اپنا اعتماد تقریبا کھو چکے تھے - ان کی رہائی پر بھی پارٹی کے اندر کئی سوال اٹھے کہ چھاپہ پڑوانے میں عامر خان کا ہی ہاتھ ہے - اسطرح عامر خان جنہوں نے مشکل وقت میں پارٹی کو سہارا دیا ہوا تھا عملا بے سہارا ہوتے چلے گئے - فاروق ستار جو ایک سے زائد مرتبہ رابطہ کمیٹی کے غنڈوں اور حماد صدیقی کے اسکواڈ کے ہاتھوں پٹ چکے تھے کئی مرتبہ نجی محفلوں میں الطاف حسین کے خلاف بولتے پائے گئے - ان حالات میں پاک سرزمین پارٹی لاونج ہوئی اور مصطفی کمال نے کھل کر الطاف حسین کے خلاف حملے شروع کردئیے - متحدہ کے کچھ ذمہ داران نے اور انیس قائم خانی سمیت قائم خانی برادری کے تمام افراد نے پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی - کچھ سیانے رهنما (حیدر عباس رضوی ) پاکستان سے با ھر نکل لئے اور بیرون ملک سے ہی قائد کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے - یہ وہ وقت تھا جب متعدد بار رابطہ کمیٹیاں ٹوٹتی اور تشکیل پا تی رہیں -عدم اعتماد کی ایسی فضاء قائم ہوچکی تھی کہ پاکستان میں موجود پارٹی رہنماء اپنے سائے پر بھی مشکل ہی سے اعتماد کر رہے تھے - مجبورا لندن میں مقیم قائد تحریک نے بہت سے سخت فیصلے کئے - جن میں محمد انور نامی بھا رتی شہری اور " را " کے ایجنٹ سے بادل ناخواستہ جان چھڑائی جو کہ پارٹی میں فنانس کے معاملات کا نگران تھا - اسی طرح پاکستان میں رینجرز کے ہاتھوں مطلوب گرفتار شدگان سے لاتعلقی کا اعلان کیا - مگر سب اکارت دکھائی دے رہا تھا -
ندیم نصرت اور مصطفی عزیز آبادی پر اعتماد کے علاوہ چارہ نہیں تھا - عملا اسی وقت الطاف حسن نے لندن اور پاکستان متحدہ کی بنیاد رکھ دی تھی - اور اس کو حتمی شکل اس وقت دی گئی جب کراچی پریس کلب کے با ھر " ڈمی "(DUMMY) بھوک ہڑتالیوں سے خطاب فرماتے ہوئے میڈیا پر حملے کی ترغیب دی - اسی خطاب میں انھوں نے پاک فوج کو بے نقط سنائیں بھی - اسطرح پاکستان میں فاروق ستار کو پاکستان متحدہ کا سربراہ نامزد بھی کردیا - متحدہ اور قائد کا وفادار کارکن اب مزید کنفیوز ہوا کچھ فاروق ستار کے ساتھ عہد رفاقت نبھانے میں لگ گئے تو کچھ ابتداء میں ہی پاک سرزمین کا حصہ بن چکے تھے - لندن اور پاکستان کمپنی میں محاذ آرائی شروع ہو گئی - ندیم نصرت اور فاروق ستار کے مابین گرما گرم بحث اور اپنے ہونے اور دوسرے کے نہ ہونے کا یقین دلانے کا ڈرامہ جاری ہی تھا کہ مصطفی کمال اور پندرہ سالوں سے گورنر شپ پرایستادہ عشرت العباد کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا نیا سلسلہ شروع ہوا - مصطفی کمال نے گورنر کو اسٹیبلشمنٹ کا حصہ کہا اور الطاف حسین کے مفادات کا محافظ قرار دیتے ہوئے کراچی میں ہونے والی تمام تر دہشت گردی کا الزام عائد کیا - جس کے جواب میں برسوں " گوتم بدھ " بنے رہنے والے گورنر کی زبان کھل گئی اور انہوں نے بھی ان واقعات کی ذمہ مصطفی کمال پر عائد کی - تا حال یہ منہ کی فائرنگ جاری ہے - تمام سیاسی جماعتیں ان دھڑوں کے درمیان جاری جنگ میں اپنی رائے دینے میں بخل سے کام لے رہی ہیں - پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ ان کی گھر کی لڑائی ہے - جماعت اسلامی کہہ رہی ہے کہ ان الزمات میں کون سی نئی بات ہے - ہم تیس سالوں سے یہی بات کہہ رہے ہیں انھوں نے تو اب اگلنا شروع کیا ہے - نواز شریف چونکہ ابھی دل کے آپریشن سے اٹھے ہیں لہذا وہ مزید بیماری مولنے کے موڈ میں نہیں ہیں - مگر ایک فریق ایسا ہے جو ان معاملات پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور کسی بھی وقت صولت مرزا کی طرح حماد صدیقی کو طیارے میں بٹھا کر پاکستان لاسکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کچھ صندوقوں سمیت" علی بابا " طیارے میں بیٹھے تھے - اس وقت تک یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کون کس کے ساتھ ہے - تازہ ترین واقعہ متحدہ لندن کے پاکستان میں موجود اہم رہنما جن میں حسن ظفر عارف ، کنور خالد یونس اور امجد اللہ شامل ہیں ، کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے - مذکورہ رہنما اس سے پہلے کراچی پریس کلب میں قائد تحریک کے ایماء پر زور دار انٹری مار چکے تھے - حسن ظفر عارف کی پاکستان دشمنی اپنے قائد کی طرح کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے - کراچی یونیور سٹی میں جب وہ لکچرار تھے تب بھی پاکستان مخالف سرگرمیاں دکھاتے رہے جس کی پاداش میں انہیں خارج از جا معہ کیا گیا تھا - بہر حال اب کی اطلا ع یہ ہے کہ گورنر عشرت العباد اور مصطفیٰ کمال دونوں کو آپس میں منہ کی فائرنگ بند کرنے کے آرڈر جاری ہو چکے ہیں اور اگلا محاذ نومبر کے پہلے ہفتے میں کھلنے کی امید ہے - !!!

Comments

  1. نجیب بھائ کوزے میں بند کر دیا سب

    ReplyDelete
    Replies
    1. عدیل بھائی - بہت شکریہ
      میری اس خبر میں کہ گورنر اور مصطفیٰ کمال کو منع کردیا ہے کہ اب بہت ہوچکی -
      آج کی اطلا ع یہ ہے کہ گورنر کو تبدیل کیا جارہا ہے -

      Delete
  2. نجیب بھائ کوزے میں بند کر دیا سب

    ReplyDelete
    Replies
    1. عدیل بھائی - بہت شکریہ
      میری اس خبر میں کہ گورنر اور مصطفیٰ کمال کو منع کردیا ہے کہ اب بہت ہوچکی -
      آج کی اطلا ع یہ ہے کہ گورنر کو تبدیل کیا جارہا ہے -

      Delete

Post a Comment