دیسی ایڈورڈ اور ممتاز محلے : تحریر ---- نجیب ایوبی

مجھے یاد نہیں آرہا کہ یہ کہانی میں نےکہاں پڑھی ہے؟ یا ہو سکتا ہے کوئی فلم دیکھی ہو ، کہتے ہیں کہ انیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ کے ایک امیر، دولت مند ماردیک فیملی میں ایک بچہ پیدا ہوا ، یہ ماردیک خاندان میں پہلی ولادت تھی . یہ بچہ بہت ہی خوبصورت تھا .ناک نقشہ ماں اور باپ دونوں سے ملتا ہوا . مگر قدرت نے اس بچے کو دو چہرے عطا کئےتھے ، ایک چہرہ وہ تھا جو سامنے سے بالکل عام بچوں جیسا ، نارمل تھا ، انتہائی خوبصورت ، شکل دل موہ لینے والی ----- - مگر عین اس کے پیچھے کھوپڑی کی جانب ایک اور چہرہ بھی تھا ------ بہت بدنما اور بھدا ---- عقبی چہرے سے وہ صرف دیکھ سکتا تھا ، اور تاثرات کا اظہار اپنے ہنسنے اور رونے کی صورت میں کرسکتا تھا . حالانکہ اس چہرے پر منہ بھی موجود تھا ، مگراس منہ سے غذا نہیں کھا پاتا ، سامنے والے چہرے سے وہ عام انسانوں کی طرح کھا بھی سکتا ، بول سکتا اور ہر وہ عمل کرسکتا تھا ، جو ایک عام نارمل آدمی کرسکتا ہے . گھر والوں نے اس بچے کو " ایڈورڈ ماردیک " کا نام دیا - ماردیک فیملی نام تھا جو بطور کاسٹ استعمال ہوتا ہے - ایڈورڈ وقت کے ساتھ ساتھ بڑا ہوتا رہا ، اپنے دونوں چہروں کے ساتھ ! مشکل یہ تھی کہ ایک چہرہ بات کرتا تھا تو دوسرا چہرہ مسکرا کر اس کی بات پر خوشی کا اظہار بھی کرتا ، اگر غلط بات ہوتی تو غوں غان کی آواز کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کرتا ، ایڈورڈ نے شروع شروع میں کوشش کی کہ اپنے پچھلے چہرے پر کوئی نقاب رکھے ، مگر جب نقاب ہٹائی جاتی تو پچھلا چہرہ آنسوؤں سے تر نظر آتا ، چناچہ پچھلے چہرے سے نقاب اتاردیا گیا - اب ایڈورڈ بچہ نہیں تھا ، وہ بڑا ہوچکا تھا ،اسکول سے کالج تک کا سفر ایڈورڈ نے جس کرب کے ساتھ گزارا اس کا اندازہ کوئی اور کر ہی نہیں سکتا تھا . جب لڑکیوں کے ساتھ پارٹیز اٹینڈ کرتا ، تو دوسرا چہرہ لڑکیوں کو آنکھ مار مار کر اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش بھی کرتا --ایڈورڈ ماردیک کے لیے یہ بات بہت تکلیف دہ تھی ، وہ دہری زندگی گزار رہا تھا - دولت کی ریل پیل کے باوجود ایڈورڈ کو روحانی خوشی میسر نہ تھی - کلب لائف بھی اس کو سکون نہیں دے پارہی تھی - اس رات ایڈورڈ کسی پارٹی سے واپس آیا تھا ، اس رنگا رنگ پارٹی میں وہ اپنی نئی گرل فرینڈ سے ملا تھا ، دونوں بہت خوش تھے ، مگر دوسرا چہرہ بار بار ان کو اپنی غوں غان سے ڈسٹرب کرتا رہا ، ایڈورڈ جب گھر پہنچا تو دونوں چہروں میں خوب تکرار ہوئی . اور پھر دوسری صبح ایڈورڈ ماردیک اپنے بستر پر مردہ حالت میں پایا گیا ، اپنے دونوں چہروں کے ساتھ --- گھر والوں کو ایڈورڈ کے بستر سے زہریلی گولیاں ( ادویات ) مل چکی تھیں ، ایڈورڈ ماردیک نے خودکشی کرلی اس وقت ایڈورڈ کی عمر محض تیئس سال تھی . شاید وہ اس سے زیادہ عمر دو چہروں کے ساتھ گزار بھی نہیں سکتا تھا - میڈیکل کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا ، جس نے دنیا بھر کے سرجنز کو اس جانب متوجہ کیا --اب بھی ایسے عجیب الخلقت بچے پیدا ہوتے ہیں ، جن کی بروقت سرجری کی جاتی ہے اور وہ اپنی طبعئی عمر گزا رنے کے قابل ہو جاتے ہیں- ان عجیب الخلقت، مخلوقات سے متاثر ہوکر بہت سی دومالا ئی داستانیں اور قصے بھی مشہور ہو ئے ، جن میں سے ایک مشہور زمانہ " ممتاز محل " بھی ھے ، یہ ممتاز محل کا قصّہ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں منتقل ہوا ،نام کی تبدیلی کے ساتھ ، پاکستان اور برصغیر میں ممتاز محل ایک ایسی خاتون ہے جس کا سر اور منہ خاتون کا ہے اور نچلا دھڑ ایک مچھلی کا ،----
داستان گو اس کو جل پری کا نام بھی دیتے ہیں ، زولوجیکل گارڈن ( سابقہ گاندھی گارڈن ) کراچی میں بھی " ممتاز محل " نمائش کے لیے تیار کی جاتی ہے ، ہمارے بچپن میں شاید دو روپیہ ٹکٹ تھا . جس کے بعد قانونی طور پر ممتاز محل کو دیکھا جاسکتا تھا - اب ہوسکتا ہے اس کی شرح ٹکٹ بڑھا دی گیئ ھو . لیکن میرا خیال ہے کہ اب " ممتاز محل " اجڑ چکا ہوگا - کیوں کہ روزانہ ہر چینل پر، ہم کسی بھی وقت ان " ممتاز محلوں " کو دیکھ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں ، لائیو حالت میں - یہ ممتاز محل اپنا اوپر کا حصّہ بدل کر کبھی اس چینل پر چلتے ہیں ، کبھی دوسرے پر چلتے ہیں ، یہ اپنا نچلا دھڑ بھی بدل سکنے کی صلا حیت رکھتے ہیں - کبھی ان کا نچلا حصّہ شیر کا ہوتا ہے ، تو کبھی کسی جل پری کا - اور تو اور یہ " ممتاز محلے " کیمرے کے سامنے سامنے آن لائن " کینچلی" بدلنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں -
یہ ممتاز محلے پلک جھپکتے ہی سانپ سے گیڈر بن جاتے ہیں اور شیر سے عقاب ؟ ، اتنی تیزی کے ساتھ کہ ناظرین ان کو رنگے ہا تھوں پکڑ بھی نہیں پاتے . صحافت تو صحافت ، سیاست کے میدان میں بھی ان عجیب الخلقت دوچہرے والے بچوں نے خوب نام کمایا ہے . ایڈورڈ ماردیک کی طرح ان کے بھی دو چہرے ہیں. ایک دیسی دوسرا ولایتی --- دیسی چہرہ صرف مسکراتا ہے ، تاثرات کا اظہار کرتا ہے ، رو کر ، تو کبھی مسکرا کر -- ولایتی چہرے سے یہ ہر قسم کا کام لیتے ہیں . بولتے ہیں ، کھا تے ہیں ، پیتے ہیں ، تجارت کرتے ہیں ، اور ہمیشہ ایسی جس میں صرف اپنا فائدہ ہو . پاکستان سے باہر ہمارے" ایڈورڈ " دیسی ایڈورڈ والی چہرے پر نقاب ڈالے رکھتے ہیں ، مبادہ کسی کو پتہ نہ چلے . اور جب یہ پاکستان میں ہوتے ہیں تو ولایتی ایڈورڈ کا چہرہ چھپا لیتے ہیں ، یہاں وہی پچھلا چہرہ استعمال کرتے ہیں ، جو صرف مسکرا سکتا ہے ، قہقہہ لگا سکتا ہے ، رو سکتا ہے ، ہاں مگر اس سائنسی ترقی کی بدولت رومن انگلش میں لکھاہوا اردو میں "غوں غاں'' کی آوازیں نکال سکتا ہے - ان دو چہرے والے کی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی طبعئی عمر سے زیادہ جیتے ہیں---- افسوس یہ ہے کہ یہ " کلوننگ مارکہ دیسی ایڈورڈ " خودکشی بھی نہیں کرتے !!!

Comments

Post a Comment