"میجر پرابلم----- جنرل الیکشن اور کرنل باسمتی " تحریر --نجیب ایوبی

ہر روز نئی آ ن بان کے ساتھ نکلتا دن - -----------نئے مضامین لئے  اخبار کی خبریں----------
دل ہلادینے والی  رام کہانیاں--------- خون چکا داستانیں ------- ہوش ربا اسکینڈل -------- اور گرما گرم  ٹاک شو
 صبح  گھر سے  نکلتے ہوۓ   ایک  خبر-------  ، آفس  پہنچتے کے ساتھ ہی دوسری  نئی  بریکنگ نیوز-------- ،   چٹھی  ہونے تک دوچار مزید  امید افزا  اعلانات --------،  اور پھر رات گئے گھر  پہنچنے پر   پورا منظر نامہ  تبدیل ! 
 واہ  رے  دن، واہ رے میڈیا  اور واہ رے خبروں کے سوداگر-
   خوب تماشہ  لگا ہوا ہے ،  ہر  رنگ باز اپنی اپنی  بنسی  بجا  رہا ہے-
 ہر ڈفلی  سے ایک ہی آواز آرہی ہے  کہ  "  ہم آخری  دہشت گرد کو  ختم کر کے دم لیں  گے "--
 بھائی !  ڈفلی والے بھائی ---  یہ تو بتائیں  کہ "  آپ  نے اب تک  پہلے  دہشت  گرد  کے ساتھ  کیا معاملہ کیا ؟
 پہلے پر  ہاتھ  ڈالو  گے تو آخری  کا نمبر  آئے گا ناں " ؟
روز  پچیسوں گرفتار -------، بیسیوں  چھاپے------- ، نئے نئے  اقراری بیانات ------- مگر  کیا فائدہ ؟  ؟؟؟
عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کو  کیفر کردار تک پہنچانے  کیلئے  کون سی مشکلات  حائل  ہیں؟ 
انصاف کی  امید لگائے سینکڑوں شہیدوں کے وارث  دن بھر   ٹی وی  چینلوں کے آگے  اس امید  پر آن -لائن ٹرانسمیشن  پر نظریں گاڑے ، کان لگائے  بیٹھے صرف  یہ دیکھنے اور سننے کے لئے  کہ  ان کے پھول جسے مظلوم مقتول کا مجرم کب  تختے  پر جھولے  گا -؟؟؟

  ارے  یہ اچانک  کیسا   چمتکار  ہوگیا  کہ   وہ  اینکر  جو  بارہ   بارہ  گھنٹے لندن والے  سے لائن لگا ئے منتظر  بیٹھے رہتے اور لائن  مل جانے  پر  " جی  بھائی" ،  ہاں  بھائی ، واہ  بھائی ، کیا  بھائی  ؟  کہتے ان کی زبان  نہیں تھکتی   تھی   آج  ہاتھ  پیر   دھو کر ان کی  مٹی پلید   کرتے دکھائی  دیتے ہیں-
کسی کے اشارے پر ناچتی  کٹھ پتلیوں جیسے  اینکر  اچانک   "بھڑ  کا  چھتا  "  کیوں بن گئے ؟ ان کے کیمرہ فلیش کی روشنیاں  اچانک گل کیوں ہوگئیں ؟   وہ کون سا بٹن  ہے جو  OFF ہوگیا اور وہ   کونسا بٹن  ہے جو یک دم  ON  ہوگیا ؟
اچانک  اپنے ہی   ہاتھوں سے تراشے ہوئے بت  برے  کیوں لگنے لگے ؟
 کل تک  جو  آپ کے ساتھ  مذاق مستی کرتے تھے ، اشاروں کنایوں اور کبھی کبھی  اعلانیہ" گلاں بھی کڈ " دیتے تھے  ،وہ  تمام بت  آج  آپ اپنے ہی  ہاتھوں  مسمار کر رہے ہیں ؟  کچھ تو  خیال  کیجۓ ، فائلیں دیکھئے ، بہت سے نام  ابھی زندہ ہیں  ، بس اگلوانے کی دیر  ہے  . سب کچھ سامنے آجائے  گا - غوث علی  شاہ  سابق صدر پاکستان مسلم لیگ نون  لیگ   سندھ کے وزیر اعلی رھے ،اور بھی کچھ ہیں جو   اچھی طرح  جانتے ہیں کہ سندھ  میں  کس کو دبانے کے لئے  کن کونسا  بت   تراشا گیا -
کن کو مظلوم بنانا  مقصود تھا -اور پھر  کس طرح سے کراچی کی لیڈر شپ  کا تاج ان لوگوں کے سروں پر سجایا  جو کبھی بھی کراچی کی  نمائنیدہ  جماعت نہیں تھے -
کراچی  اور سندھ کے شہری علاقوں پر  اردو بولنے والے  " لکڑ  بگھوں   " کو اور  سندھ کے دیہاتی  اور پسما ندہ علاقوں میں سندھی بولنے والوں  "باجڑوں" یعنی قوم پرست سندھیوں کے سر پر ہاتھ رکھا گیا -     بہت سے قا رئین   میری طرح اگر " بجو کا "   نہیں سمجھتے  تو جان لیں کہ  کھیت کھلیانوں  میں جب فصل  پکنے والی  ہوتی ہے ان دنوں لکڑی  کا  کرا س نما بنا کر   سر پر مٹی کی ہانڈیا  لگا دی جاتی ہے  جس پر  انسانی لباس  پہنادیا جاتا ہے  ، لیجیئے   اردو زبان  میں" بجوکا "  اور  سندھی میں "باجڑ"  اور پنجابی زبان میں  " بامنا " تیار ہوگیا -
 آج کی  کہانی  " بجوکوں "   کے نام  سہی -   یہ پرانی بات ہے  بھٹو  مرحوم    کے   اقتدار میں ، جب طاقت کا نشہ اپنے عروج پر تھا - مشرقی محاذ  پر  ھماری  عسکری  قیا دت  تازہ تازہ  زخم خوردہ واپس لوٹی -   " جنرل "  الیکشن   کا نتیجہ  بھی سامنے تھا -  پاکستان پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب کی ایک بڑی  جماعت بن چکی تھی -  بھٹو  صاحب   نے   کچھ  ہی عرصہ  میں اپنی عوامی طاقت  کا عملی  مظاہرہ بھی دکھانا شروع کردیا تھا  -  اس طاقت کا بھرم  قائم رکھنے کے لئے چاروں صوبوں میں اپنی پارٹی پوزیشن بھی مضبوط رکھنی تھی - عالمی دنیا میں عوا می  قائد  کا درجہ بھی حاصل کرنا تھا - ملٹی  ڈائمنشنل  مقا صد  کے لئے  ایٹم  بم   کی تیاری -
 اسلامی سربراہ کانفرنس اور  روس سے روابط  بڑھانا -
اور یہ سب کچھ  امریکہ بہادر  کو بہت ناگوار  گزرا -  انتخابات سر پر آچکے تھے -   پاکستان پیپلز پارٹی  اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی -  پنجاب  سے  احمد رضا قصوری جو   پیپلز پارٹی   سے علیحدہ  ہو چکے تھے، بھٹو  صاحب  نے  ان کو ختم  کرنے کا فیصلہ  -( ایف- ایس-ایف)  فیڈرل سیکورٹی فورس کے ذریعے  ایک  منصوبہ  بنایا گیا کہ  احمد رضا قصوری کو ختم کردیا جائے .  چناچہ   اس گاڑی  پر حملہ ہوا  جس میں احمد رضا اپنی فیملی کے ساتھ گزر رہے تھے -  ان کے والد نواب محمد احمد قصوری   سینے پر گولیاں لگنے سے   زخمی اور ہسپتال پہنچ کر ہلاک  ہوگئے -  احمد رضا کیوں کہ   وکیل اور سابق  صوبائی ممبر اسمبلی تھا اس لئے کسی نہ کسی طرح  ایف آئ آر لکھوانے میں کامیاب رہا- اس میں   ملزمان میں  جناب ذوا لفقار علی  والد شاہنواز علی    کا نام بھی شامل تھا -
یہی  پرچہ  قتل بھٹو  کو پھانسی کے پھندے تک لیجاتا ہے - ضیاء ا الحق  نے بندوق کی نالی سیدھی کی اور سیدھے سادھے طریقے سے  حکومت پر براجمان ھوگیے ، امریکہ  کا انتقام  ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا ، پھر  گول مول فوجی عدالتی کاروائی  ہوئی  اور  چار اپریل  1981 کو   بھٹو  صاحب   کو   پھانسی دے دی گیئی -
اس مقدمے کے معاف گواہوں میں  ایف ایس ایف   کا سربراہ  مسعود  محمود  اور چار اہلکار شامل تھے - ان چاروں اہلکاروں کو بھی  پھانسی دے دی گئی  ، سوائے   مسعود  محمود کے - شاید اس لئے  کہ وہ  "پلانٹڈ "  بیوروکریٹ   تھے - جن کا کردار   صرف گواہی تک محدود تھا -  مسعود محمود  کی گواھی  نے  منتخب وزیر اعظم   کو  امریکہ  سے  پنگا  لینے  کا بدلہ چکا دیا -
پھر اس  کے بعد   پاکستان  کے ہرے  بھرے  کھیتوں میں   لکڑی گاڑ دی  گئی  ، وردی چڑھا کر ٹوپی  پہنائی   گیی  اور  جنرل یعنی  عام سا " بجوکا"  مسلط  ہوگیا -
تیرہ سال  اس کے خوف سے  کوئی پرندہ  کھیت میں نہیں آیا -  افغانستان  کی فصل بھی  امریکہ بہادر  نے خوب کاٹی -  اس  عظیم  کامیابی کے بعد  اس کا   طیارہ  فضا  میں ہی پھٹ  گیا ، اور پنجاب کے  کسی کھیت میں گر کر " بجوکا  " سمیت راکھ کا ڈھیر  بن گیا -
بجوکا   کی کہانی  ابھی ختم نہیں ہوئی - پھر  سندھ میں پیپلز پارٹی   کے کارکنوں میں انتقام کی  جوا لہ مکھی اپنے جوبن پر تھی - پیپلز پارٹی  کے جذباتی کارکنوں نے مرتضی  بھٹو کی قیادت میں  ضیاء ا الحق  سے بدلہ لینے کی قسم کھائی اور الذ ولفقار  کی بنیاد رکھی -
 اسلام اللہ عرف  ٹیپو ، ناصر جمال ، ارشد شیرازی  سمیت بیشمار  کارکن ، جیالے  سر سے کفن باندھ کر  افغانستان  چلے گئے  - ہندوستان سے دہشت گردی اور گوریلا  کاروائیوں کی تربیت حاصل کرتے ہیں - اس تمام عرصے میں کرنل قذافی  ان تمام افراد  کی مالی سرپرستی  بھی کرتے رہے - ٹیپو  اپنے ساتھیوں سمیت پاکستان آیا  -  پی آئ اے کا جہاز اغوا  کرنے کے بعد  الذولفقار  کے  54   گرفتار افراد کو اپنے جہاز میں بیٹھا کر  پہلے دمشق  اور پھر کابل  نکل گیا -
اپ  پاکستان پیپلز پارٹی   پر   گھیرا تنگ ہونا شروع ہوگیا  ، باوجود اس کے  کہ      بے نظیر  دو مرتبہ   اقتدار میں آئیں - مگر  اب ضروری تھا کہ سندھ سے ان کی اجارہ داری کو   ختم کیا جائے - چنانچہ  سندھ میں   ترقی پسند وں  کے نام پر " کاٹھ کے پتلے -   یعنی بجوکے   تخلیق کے گئے - جبکہ   شہری سندھ میں    پاجامہ - واسکٹ  اور سفید  کرتے  پہنے  بجوکے   مسلط  کے گئے -- یہ تھا بدلہ   اور اس کو کہتے  ہیں بدلہ!
 پھر تیس سال  بیت جاتے  ہیں ، ایک نسل  ختم ہوگیی ، ایک جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر جاپہنچی -  بجوکے   موجود ہیں -  یہ " بجوکے "   اسمبلی  میں جاتے ہیں - سینٹ  میں بیٹھے ہیں - لندن  یاترا  کرتے ہیں - گلچھرے اڑاتے  ہیں - کوئی  ان کا کچھ نہیں بگاڑ  سکتا  - ماسوا ۓ  ان کے  جنھوں نے ان کو " فٹ ''   کیا ہوا ہے
تیس سالوں میں کیا کچھ نہیں ہوگیا -  بچیس ہزار سے زیادہ افراد  ٹارگٹ کلنگ  میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے -  علماء  مفتیان کرام   چاہے سنی  ہوں  یا شیعہ، بلا کسی  تردد  شہید کردے جاتے ہیں -  ڈاکٹر ، انجنیرز  اور پولیس اہلکار ختم کردئے  جاتے ہیں ، کوئی گرفتاری نہیں  ہوتی -  چار  مرتبہ " جنرل " الیکشن  ہوۓ   چاروں مرتبہ   بجوکوں    کو نیا کرتا  پاجامہ  چڑھایا  گیا -  اور  کراچی  اور سندھ کے شہری  علاقوں میں فٹ کیا گیا -   اس مرتبہ بھی ویسے   کوئی  " میجر پرابلم" نہیں ہے -  صرف  تھوڑا  سا حلیہ تبدیل کرنا ہے  ، کیوں کہ  تیس سالوں میں  یہاں  کے پرندے   بجوکوں   سے مانوس ہونے لگے  تھے - دانہ دنکہ  چگنے لگے  تھے - کبھی کبھی تو  پرندوں  کی  ڈاریں  اچانک ھلہ  بول دیتی تھیں اور  بجوکے  - کاٹھ کے  پتلے  منہ دیکھتے رہ جاتے -
اس لئے  ترا ش خرا ش   اور نوک پلک  درست کرنے کے بعد   جلد ہی  دوبارہ  کھیتوں  کھلیانوں  میں فٹ کردے جائیں  گے - چنتا مت  کیجئے - سرکار آپ کا بھلا  سوچ رہی ہے -
دیکھئے  ناں  آپ ہی کے بھلے کے لئے پاکستان  کا نمبر  ون   چاول  " کرنل  باسمتی '' جسے  دیکھتے ہی دیکھتے  مسلم دنیا  میں ہاتھوں ہاتھ  لیا جارہا ہے - اپنے ملک کے عو ا م کے واسطے  اتنی سستی قیمت  پر  پہلے کبھی دستیاب  تھا ؟   
الحمدللہ آج  دنیا بھر میں  اپنے عمدہ ذائقے  کی بدولت ہر ایک کی زبان پر  راج  کرتا ہے
ہمارے  کھیتوں میں ہما رے ہی   بجوکے    فٹ ہیں  اور  وہاں کی زرخیزی  اور فصل کی نمو  ھماری  اپنی پیداوار  فوجی  فرٹیلائزر   کی مرہون منت ہے
دیکھئے ناں ہم نے آپ کے تحفظ  کی قسم بھی تو  کھائی ہوئی ہے - اور اس کو یقینی  بنانے کے لئے ہم کسی بھی حد  تک جاسکتے ہیں - ہم نے  پڑوسی ملک سے  ٹیلنٹ ہنٹ  پروگرام کے تحت  بجوکوں    میں  پڑوس ملک سے بھی بجوکے   شامل کئے  ہیں - بہت جلد آپ دیکھیں گے  کہ  شیر  اور بکری  ایک ہی گھاٹ  سے پانی  پی رہے  ہوں گے - اس کا تجربہ  آپ کو  گزشتہ دنوں ہوگیا ہوگا -   جب شیر اور بکری  شو میں   ہم نے دونوں  کو جناح  گراؤنڈ  میں چھوڑا  تھا ،  چند گھنٹوں میں  شیر اور بکری  گورنر  ہاؤس کے گھاٹ  پر ایک ساتھ  پانی  نہیں پی رہے تھے تو  اور کیا کرر ہے  تھے ؟
بارہ مئی کے نامزد ملزم کو  تاج پہنانا معمولی بات ہے ؟؟؟
مینڈیٹ کا خیال رکھا اور پھر واپس کھولی میں ؟
لندن اور پاکستان میں   نائلون  کی ڈور   سے مواصلاتی نظام قائم کیا ؟
اقراری مجرموں کے دفاتر  کو تالے ڈالے جارہے ہیں
کیااب  بھی ہماری صلا حیتوں پر کوئی شبہہ باقی رہ جاتا ہے ؟ 
 ایک بار  بس "  جنرل " الیکشن  ہونے دیں   پھر دیکھتے  ہیں -
 ہاں ارے یہ بات ذہن میں رہے کہ  " ہم آخری دہشت  گرد  کو زندہ نہیں چھوڑیں گے "


-

Comments

  1. اللہ دے زور قلم اور ذیادہ

    ReplyDelete
    Replies
    1. عدیل صاحب
      بہت شکریہ آپ نے بلاگ اور مضمون پسند کیا - اپنے احباب کو بھی اس بلاگ پر راغب فرمائیں - آپ کا نجیب

      Delete
  2. اللہ دے زور قلم اور ذیادہ

    ReplyDelete
  3. عدیل صاحب
    بہت شکریہ آپ نے بلاگ اور مضمون پسند کیا - اپنے احباب کو بھی اس بلاگ پر راغب فرمائیں - آپ کا نجیب

    ReplyDelete

Post a Comment