یہ شہر تمہارے باپ کا نہیں ہے --نجیب ایوبی

مسجد کے مرکزی دروازے کے سامنے میدان نما خالی زمین پر ایک جانب سبزی اور پھلوں کے ٹھیلے مستقل بنیادوں پر موجود تھے ، درمیان میں سبزیوں کا کچرا -------، لکڑی کی خالی پیٹیوں اور گلے سڑ ے پھل اور ان کے چھلکوں کا ڈھیر-------------- ،
دوسری جانب لکڑی کی چھوٹی سی ٹال ، یہی ہماری گزر گاہ بھی تھی . گھر سے مسجد تک آنے جانے کے لیے اسیخالی پلاٹ والی راہداری کو استعمال کرنا ہوتا تھا --- یہ ٹال "گل خان" کا ڈیرہ بھی تھا اور شکم کی آگ بجھانے کا ذ ریعہ بھی-----------. لکڑی کی ٹال کے کونے پر جھونپڑی تھی ، دو جھلنگ قسم کی چارپائییاں اس جھونپڑی کے باہر ہی پڑی رہتیں --------- لکڑیاں گول مٹول بغیر کٹی ہوئی الگ ، کٹی ہوئی الگ اور موٹے موٹے لاٹ سلیقے کے ساتھ دیوار کی مانند ٹال کے ارد گرد فصیل کا کام دیتے -- بیچوں بیچ لکڑی کا چوں چوں کرتا ترازو ایستا دہ----، اس سے ذرا فا صلے پر مختلف قسم کے کوئلے ، چکنے مگر سیاہ کوئلے ا لگ ، گول ڈھنٹھل گانٹھ لگا کوئلہ علیحدہ ، اور چورا کوئلہ الگ ----- یہ سب اس سلیقے سے لگے ہوتے کہ اندھا بھی ان کے درمیان تمیز کرلے- گل خان جب لکڑی کاٹتا تو دیکھنے کا سماں ہوتا ، گل خان کا پہلے دونوں ہتھیلیوں پر" تھو " کرنا ، پھر کلہاڑا سنبھالنا ، موٹی لکڑی کو درمیان میں رکھ کر اسکا سنٹر بنانا ،اک دو مرتبہ جائزہ لیکر تیزی کے ساتھ کلہاڑا سر تک لیجاکر منہ سے "ہنپ " کی آواز نکالتے ہوتے لکڑی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگانا دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا - گل خان کے ایک وار میں ہی بڑی سے بڑی لکڑی کی اکڑ نکل جاتی ، اور دو تین مرتبہ کی " ہانپ ہنپ " میں لکڑی کے کئی ٹکڑے ہوجاتے - "نصیب گل " کے شہر آجانے سے گل خان کا بوجھ بہت حد تک کم ہوگیا تھا ، اب گل خان یا تو لکڑیاں وزن کرتا ، اور سلیقے سے جماتا یا پھر اپنی جھلنگ چارپائی پر کمر لگا کر اپنے جوان بیٹے نصیب گل کے کام کا جائزہ لےرہا ہوتا - محرم میں حلیم کی دیگ بنانی ہو، شادی بیاہ پر دعوت کا کھانا بنانا ہو یا عید بقرعید پر تکہ پارٹی ہو، ٹال پر رونق لگی رہتی ، سیزن میں گل خان اور نصیب گل دونوں ہی ہانپ ہنپ کرتے ---مغرب سے پہلے ٹال بھی بند ہوجاتی - عشاکی نماز کے بعد ہی دونوں باپ بیٹا جھونپڑی کے باہر چار پائیوں پر سو رہتے ، صبح سویرے اٹھ کر اپنے معمول میں لگ جاتے . گل خان مسجد میں ہر نماز میں موجود ہوتا کپڑے کسی بھی رنگ کے ہوں ، کالے دھبے ہمیشہ ہی اس کے کام کی چغلی کھارہے ہوتے -منہ پر کالک کی کوئی نہ کوئی لکیر ہمیشہ ہی رہتی ، کبھی کم کبھی زیادہ وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا ، میرے انٹر کے امتحانا ت ہوگئے دو مہینوں کی طویل چٹھیاں ایسے میں شہر کی انتظامیہ نے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا روزانہ کوئی نہ کوئی کارنر میٹنگ ، جلسہ یا پھر کوئی جلوس ، پورا شہر انتخابات کے بخار میں مبتلا ہوچکا تھا - مگر گل خان اور نصیب گل ہمیشہ کی طرح "ہانپ ہنپ" میں مست رہے ، انہیں کوئی غرض نہیں تھی کے شہر میں کیا ہورہا ہے ، کون جیتے گا ، کس کے ہارنے سے کس کو فائدہ یا کس کو نقصان ہوگا ---وہ یا تواپنی ٹال پر ہوتے یا مسجد میں - ایک دن عجیب سا واقعہ ہوگیا ، کسی نے انتخابی امیدوار کا قتل کردیا ، الزام مخالف پارٹی پر لگایا گیا --- دوسرے دن دوسری پارٹی کے دو ہمدرد سر راہ قتل کردیے گئے -- - پھر کیا تھا ، مختلف علاقوں میں کشیدگی پھیل گیئ - اخبارات موٹی موٹی شہہ سرخیوں میں رپورٹ جاری کرنے لگے -- شام کے دو روپے والے اخبارات نے سنسنی خیزی کی انتہا کردی ، زخمیوں اور ہلاک شدگان کی رنگین تصا ویر کے صفحات پر لگانی شروع کردیں -- انتظامیہ ان فسادات کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی تھی --- ہر محلے میں ہنگامے پھوٹ پڑ ے- زبان کی بنیاد پر علاقے تقسیم ہوگئے - ہمارا علاقہ بھی اسی زد میں آگیا راتوں کو چوکیداری کا نظام تشکیل دیا گیا - مشکوک افراد کو دیکھتے ہی کھمبے بجنا شروع ہوجاتے --- ایک رات محلے کے نوجوان کا قتل ہوا - سارا محلہ جنازے کے جلوس میں شریک تھا ، جنازہ ختم ہوا ، تدفین کے بعد سڑک بلاک کردی گئی - خوب نعرے بازی ہوئی -ٹا یر جلے - پتھراؤ ہوا ، مگر لوگوں کا غصّہ تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا ، پولیس آئی ، آنسو گیس پھینکنی پڑی - نوجوانوں کی ٹولیاں گلیوں سے نکلتیں اور گلیوں میں چھپ جاتیں -- آنکھ مچولی رات گئے تک جاری رہی - گل خان ، نصیب گل اپنی جھلنگ چارپائیوں پر سو چکے تھے --شور شرابے سے اٹھ بیٹھے- " اوے نصیب گلاں ! اوے نصیب!" گل خان نے جھنجھوڑ ھتےھوے آواز لگائی - "خان بابا -- کیا اوا، خیر تو اے " "نصیب اٹھ! لگتا اے اما رے ڈیرے پر حملہ ہوا ہے " نصیب گل پوری طرح بیدار ہوچکا تھا ، "بابا--میں دیکھتا اے تم فکر مت کرو "ارمان رکھو ، ادھر کوئی نیئنآے گا " نصیب گل نے باپ کو تسلی کروائی -- چارپائی سے اٹھ کر چندقدم آگے بڑھا -- ٹال کے بیچوں بیچ آکر دوبارہ گل خان کو مخاطب کیا " بابا ، دیکھو کوئی بھی تو نہیں ہے -- " اچانک کسی نے پیٹرول کا کنستر انڈیلا ، ماچس پھینکی،، شعلےبلند ہوے پھر کیا تھا -- ہر طرف آگ تھی ، دھواں تھا --آگ کس نے لگائی کسی کو نہیں معلوم ؟ نصب گل کے کپڑے آگ پکڑ چکے تھے " نصیبا اوے نصیبا -- مڑ اں آگ بجھا -- نصیبا " گل خان دیوانہ وار چیختا جارہا تھا -- ہجوم نے اس کو بھی دبوچ لیا تھا -- "ماڑ اں--عمارا قصور بتا ؤ ---- ام بیگناہ اے نصیب گل بیگناہ اے ،خدا قسم اما رےکو کچھ معلوم نئیں " گل خان چلاتا رہا -- نصیب گل کوئلے کے ڈھیر پر گر چکا تھا ، شعلوں میں نہ نصیب گل دکھا ئی دے رہا تھا ، نہ ہی گل خان ! آگ تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتی تھی -- بلند و بالا شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے -- "سالے بہت مزے کرلیے شہر میں- یہ شہر تمہارے باپ کا نہیں ہے ---- ہمارا ہے ہمارا ----" ہما رےمحلے سے انتخاب لڑنے والے امیدوار سینہ ٹھوک ٹھوک کر آگ لگانے والوں کی حو صلہ افزائی کررہے تھے ---- صبح فجر سے پہلے آگ بجھ چکی تھی -- فسادی گھر لوٹ گئے تھے -- آخبارات کی شہہ سرخیاں تیار تھیں مسجد کے باقاعدہ نمازی خالی پلاٹ والی گزرگاہ سے اپنے کپڑے اور ہاتھ پاوں بچاتے مسجد جارہے تھے --- ٹال کا سارا کوئلہ ، لکڑی ،گل خان اور ، نصیب گل جل کر کوئلہ بن چکے تھے---- لکڑی کی ساری اکڑ نکل چکی تھی

Comments

  1. انتہائ خوبصورت تحریر نجیب بھائ،
    مگر دردناک موضوع ھے

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت شکریہ عدیل صاحب, توجہ فر مانے کا شکریہ

      Delete
  2. اللہ اکبر .یہ ہر گلی محلے کی کہانی ہے اور یہ سفاکی کی یونیورسٹی کا پہلا باب تھا جو لوگوں کو پڑھایا گیا. پھر تو لوگ گریجویشن .ماسٹرز. اور پی ایچ ڈی کرتے گئے. ...مگر صاحبان اختیار کو ہوش کیا آتا یہی نصاب ہمارا نصیب کر دیا گیا. تیس سال کی بھیانک تاریخ. ..اللہ رحم
    ظفر اقبال

    ReplyDelete
    Replies
    1. ظفر اقبال بھائی
      بے حد نوازش, آپ نے توجہ دی

      Delete

Post a Comment