تہران میں اسماعیل ہانیہ کی شہادت، مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا خطرہ

 


حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں شہید کردیا گیا ہے۔ ایرانی حکام نے بتایا کہ اسماعیل ہانیہ کو اُن کی رہائش گاہ میں نشانہ بنایا گیا۔ حملے میں اُن کا ایک گارڈ بھی شہید ہوا۔

اس واقعے نے مشرقِ وسطیٰ میں ہلچل مچادی ہے۔ اسرائیل میں ہنگامی حالت کا اعلان کرکے خصوصی اقدامات شروع کردیے گئے ہیں۔ اسرائیلی اخبار ہاریز نے بتایا کہ اسرائیل نے اپنی فضائی حدود بند کردی ہیں۔ حماس، حزب اللہ اور حوثی ملیشیا کی طرف سے حملوں کے خطرے کے پیش نظر اسرائیل بھر میں وسیع پیمانے پر دفاعی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

حماس کے ترجمان شیخ مرزوق نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کے لیے یہ حملہ بہت خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے کیونکہ اُسے سزا تو ہر حال بھی بھگتنا پڑے گی۔ حماس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ قائدین پر حملے کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیے جاسکتے۔ حماس اس حوالے سے منصوبہ سازی اور تیاری کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ دو دن قبل ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے دھمکی دی تھی کہ ترکیہ کی فوج اسرائیل میں اُسی طور کارروائی کرسکتی ہے جس طور لیبیا اور آرمینیا میں کی گئی تھی۔ اس پر اسرائیل نے کہا تھا کہ ایسا ہوا تو رجب طیب اردوان کا وہی حشر ہوگا جو صدام حسین کا ہوا تھا۔

اسماعیل ہانیہ کے قتل کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ امریکا اور اسرائیل نے اس حوالے سے چپ ساتھ رکھی ہے۔ سعودی میڈیا نے بتایا ہے کہ اسماعیل ہانیہ کو رات دو بجے میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ اب تک یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اُن پر فائرنگ کی گئی۔

امریکا نے خبردار کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی جنگ کی گنجائش نہیں۔ اس حوالے سے امریکا نے معاملات پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن کہتے ہیں کہ اگر کسی بھی تنظیم یا ملک نے اسرائیل کو نشانہ بنانے کی کوشش کی اور معاملات کو جنگ کی طرف لے جانے کی منصوبہ بندی کی تو امریکی فوج اسرائیل کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی۔

روس اور ترکیہ نے اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر غیر معمولی ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی قتل کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ روس کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں صورتِ حال بہت خطرناک شکل اختیار کرسکتی ہے۔ ترکیہ کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہانیہ کے قتل سے معاملات بہت بگڑیں گے اور اسرائیل کو اس کی قیمت چُکانا پڑے گی۔

From : Web Desk Daily Jasarat 

Comments