جماعت اسلامی کا سندھ کے بلدیاتی قانون کیخلاف دھرنے کا چھٹا دن;بارش کے باوجود دھرنا جاری ،عوام میں جوش و خروش
کراچی(اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی کے تحت سندھ حکومت کے بلدیاتی قانون کے خلاف اور کراچی کے ساڑھے 3 کروڑ عوام کے جائز اور قانونی حق اور مسائل کے حل کے لیے سندھ اسمبلی کے سامنے دیاجانے والا تاریخی دھرناچھٹے دن میں داخل ہوگیا ، شرکا میں زبردست جو ش وخروش ،سرد موسم اوربارش کے باوجود شرکا انتہائی نظم و ضبط اور اطمینان کے ساتھ سڑک پر موجود رہے ۔منتظمین کی جانب سے بارش سے بچاؤ کے لیے انتظامات کیے گئے تھے ۔سندھ اسمبلی کے سامنے سڑک پر شرکا کے لیے بڑے پیمانے پر شامیانے لگا کر ان کے اوپر پلاسٹک کی شیٹس لگادی گئیں ۔کیمرہ مینوں اور فوٹو گرافروں کے لیے بھی پلاسٹک شیڈ لگایا گیا ۔ دھرنے میں پی ایس پی کے وفد ،تاجر تنظیموں واقلیتی برادری کے رہنماؤں سمیت مختلف طبقات سے وابستہ لوگوں نے شرکت کی اور دھرنے سے اظہار یکجہتی کیا۔امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے منگل کے روز دھرنے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پیپلزپارٹی جماعت اسلامی کی اہل کراچی کے حقوق کی جاری جدوجہد اوردھرنے کو لسانی رنگ دینے اور مہاجر سندھی مسئلہ بنانے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں نے لسانیت وعصبیت کی سیاست کی ہے ۔ہماری تحریک اور جدوجہد کراچی کے ہر زبان اور علاقے سے تعلق رکھنے والوں کے حقوق کی جنگ اور تحریک ہے۔ کراچی منی پاکستان ہے اور یہاں ہر زبان بولنے اور علاقے سے تعلق رکھنے والے رہتے ہیں ۔پیپلزپارٹی نے تو نہ صرف کراچی دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ اندرون سندھ کے غریب عوام کو بھی محکوم و مظلوم بنا یا ہے ۔پیپلزپارٹی عوامی حقوق کی جدوجہد کو لسانی رنگ دینے سے باز رہے۔ جماعت اسلامی کی تحریک پورے سندھ کے مظلوم ومحکوم عوام کی تحریک ہے ۔جماعت اسلامی کا دھرنا سردی کے موسم اور بارش کے باوجود بھی جاری رہے گا۔جمعہ 7جنوری کو امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اس دھرنے میں شرکت کریں گے ۔ہمارے احتجاجی پلان میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف مارچ اور دھرنا بھی شامل ہے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کالاقانون واپس لے اور2013ء اور2021ء میں بلدیاتی اداروں کے جتنے بھی اختیارات سلب کیے گئے ہیں وہ تمام اختیارات اور محکمے واپس کرے۔کراچی کو میگا سٹی کا درجہ دیتے ہوئے بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے جس کا سربراہ میئر بھی ایک بااختیار میئر ہو اور اس کا انتخاب براہ راست ہو ۔کراچی میں یونین کونسلوں کی تعداد اندرون سندھ کی طرح آبادی کے تناسب سے رکھی جائے جو 700سے 750تک ہو۔یونین کونسلوں کی گرانٹ میں بھی اضافہ کیا جائے ۔انہوں نے کہاکہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کراچی میں یونین کونسلوں کی حد بندی اور تعداد 45ہزار سے 50ہزار تک کی آبادی کی بنیاد پر کی جائے جبکہ اندرون سندھ یونین کونسلیں 10سے 25ہزار آبادی کے حساب سے بنائی جائیں ،کراچی میں یونین کونسلوں کی گرانٹ 10کروڑ جبکہ باقی صوبے میں یہ گرانٹ 65کروڑ تک دی جاتی ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ اندرون سندھ گرانٹ ضرور دیں لیکن ساڑھے 3 کروڑ آبادی والے شہر کی حق تلفی تو نہ کریں ۔کراچی پورے صوبے کے موٹر وہیکل ٹیکس کا80سے 90فیصد حصہ ادا کرتی ہے تو پھر اسے اسی تناسب کے وسائل اور اختیارات کیوں نہیں دیے جاتے ۔کراچی کی آدھی آبادی غائب کرکے جو ظلم و زیادتی اور حق تلفی کی گئی ہے اس کی ذمے داری ایم کیوایم ،پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی تینوں پر عاید ہوتی ہے ۔پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم آج بھی صرف ڈرائنگ روم کی سیاست کررہی ہیں۔سندھ میں حقیقی اپوزیشن صرف جماعت اسلامی ہے جو سڑکوں پر اور عدالت میں بھی عوام کا مقدمہ لڑرہی ہے ۔پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم آپس میں ملتے اور پھر مشترکہ پریس کانفرنس کرکے کہتے ہیں کہ ہم بلدیاتی ایکٹ کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ایم کیوا یم عوام کو بے وقوف نہ بنائے پہلے یہ بتائے کہ 2013ء میں اس نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور بہت سے محکمے پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کے حوالے کیوں کیے تھے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے 2021ء کے کالے بلدیاتی قانون میں مزید اختیارات صرف اس لیے لیے ہیں کہ یہ مزید کرپشن کریں ،مزید بھرتیاں کریں ان کی ذہنیت ہی کراچی دشمنی ہے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ جماعت اسلامی کا احتجاج اور یہ دھرنا کالے قانون کی واپسی تک جاری رہے گا ،سندھ اسمبلی کے سامنے جاری یہ دھرنا شہر بھر میں احتجاج کا مرکزبنے گا ،ہمارے احتجاجی پلان میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ بھی شامل ہے ،وزیر اعلیٰ سندھ اور صوبائی وزرا کو بہت جلد ہمارے احتجاج اور دھرنے میں سنجیدگی کا اندازہ ہوجائے گا ،اگر یہ واقعی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم سے بات چیت کرتے ہیں تو ہم تیار ہیں ۔ہم ناصر حسین شاہ اور سعید غنی سے کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی سنجیدہ ہیں اور بات چیت چاہتے ہیں تو پہلے عملی اقدامات کریں ۔ہم نے وزیر اعلیٰ سندھ کو بلدیاتی قانون کی منظوری سے قبل تفصیلی تجاویز اور سفارشات پیش کی تھیں جن کو بل میں شامل نہیں کیا گیا بعد میں ہم نے ترامیم بھی پیش کیں اور سندھ اسمبلی کے رکن سید عبد الرشید نے ان ترامیم پر اسمبلی میں بات کرنے کی کوشش بھی کی لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے آمرانہ اور غیر جمہوری رویہ اختیار کرتے ہوئے دلائل دینے اور مؤقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی اور بل منظور کرلیا ۔ ہم کراچی کے ساڑھے 3 کروڑ عوام کے حق اور مسائل کے حل کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں ،اپنے مطالبات اور اہل کراچی کے حق سے ہر گز دستبردار نہیں ہوں گے۔دھرنے سے فیڈرل بی ایریا ٹریڈ اینڈ انڈسٹری ایسوسی ایشن کے رہنما بابر خان ،عبد اللہ عابد،جماعت اسلامی اقلیتی ونگ کے صدر یونس سوہن ایڈووکیٹ ،بلدیہ عظمیٰ کراچی میں جماعت اسلامی کے سابق پارلیمانی لیڈر جنید مکاتی ،پبلک ایڈ جماعت اسلامی کراچی کے جنرل سیکرٹری نجیب ایوبی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔
Comments
Post a Comment