حقوق کراچی تحریک‘‘ شہر بھر میں دھرنے ۔ حافظ نعیم الرحمن کا گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے گھیراؤ کا اعلان

 


کراچی(اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی کراچی کے تحت ’’حقوق کراچی تحریک ‘‘کے سلسلے میں کراچی میں درست مردم شماری، کوٹا سسٹم کے خاتمے،نوجوانوں کو روزگار دینے، با اختیار شہری حکومت، بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور شہر قائد کے گمبھیر مسائل کے حل کے لیے اور 3 کروڑ عوام کے جائز اور قانونی حقوق کے حصول کے لیے شہر بھر میں 50سے زاید مقامات پر دھرنے دیے گئے،ان دھرنوں سے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن اور دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا۔شرکا میں زبردست جوش وخروش دیکھنے میں آیا،وفاقی وصوبائی حکومت کے خلاف پرجوش نعرے ،بینرز و پلے کارڈز ،کراچی کے عوام کو حقوق دینے اور مسائل حل کرنے کا مطالبہ۔جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے شاہراہ قائدین پر دیے جانے والے دھرنے سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کے بنیادی اوردیرینہ مسائل فی الفور حل کیے جائیں،حکومت اور متعلقہ اداروں نے اگر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو جماعت اسلامی اگلے ماہ 28فروری کو قائدآباد سے گورنر ہاؤس تک احتجاجی مارچ کرے گی ۔قبل ازیں حافظ نعیم الرحمن نے قیوم آباد ،کالا پل،ریگل چوک اور نورانی کباب ہائوس پر دھرنوں سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے وعدہ لیا کہ کراچی کے مسائل حل کرنے اور کراچی کو حقوق دلانے کے سب مل کر گورنر ہائوس اور وزیر اعلیٰ ہائوس سمیت تمام اداروں کا گھیرائو کریں گے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ کراچی کے3 کروڑ عوام کو ان کا جائز اور قانونی حق دینے اور شہر کے گمبھیر مسائل کے حل کے لیے کراچی میں دو بارہ مردم شماری کرائی جائے ، کوٹا سسٹم ختم کیا جائے ، کراچی کے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں میں ان کا حق دیا جائے ، ان کو سندھ حکومت اور مقامی اداروں میں ترجیحی بنیاد پر ملازمتیں دی جائیں ، کراچی میں با اختیار شہری حکومت کے لیے موجودہ لوکل باڈی ایکٹ ختم کر کے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا جائے ، کے الیکٹرک کا 15سال کا فرانزک آڈٹ کیا جائے اور قومی اداروں اور عوام کے اربوں روپے واپس کرائے جائیں ، پاکستان کی معیشت کو چلانے والی صنعتوں ،سی این جی اسٹیشنز اور گھریلو صارفین کو گیس کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جائے ،گرین لائن سسٹم کو فی الفور فعال بناتے ہوئے شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لیے کم از کم 1ہزار بسیں فوری طور چلائی جائیں ،تعلیم ،صحت ، پانی ،سیوریج ،اسپورٹس اور سالڈ ویسٹ کا مربوط اور مؤثر نظام بنایا جائے ، جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک 3 کروڑ عوام کے دل کی آواز اور ترجمان ہے ۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے کراچی کے مفادات کے خلاف اتحاد کیا ہوا ہے ، حکمران جماعتیں عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے صرف پوائنٹ اسکور نگ کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ ٹیکس جائز ے میں بھی کراچی سے 41فیصد ٹیکس وصول کیا گیا جبکہ باقی ٹیکس پورے ملک سے وصول کیا گیا لیکن اس کے باوجود کراچی کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں سے صرف چند فیصد حصہ دیا جاتا ہے ، وفاقی حکومت کے اعلان کردہ 11سو ارب روپے کے پیکج کو بھی 4 ماہ کا عرصہ گزر گیا ، صرف 5فیصد ہی عمل درآمد ہو سکا ہے ۔ پیکیجز کے نام پر کراچی کے عوام کے ساتھ مسلسل دھوکا کیا جا رہا ہے، حکمران پارٹیوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر ررکھا ہے ، پیپلز پارٹی برسوں سے مسلسل کراچی دشمنی کا مظاہرہ کر رہی ہے ، ایم کیو ایم اقتدار کے مزے تو لیتی ہے لیکن کراچی کے بنیادی اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کرتی ، پی ٹی آئی نے بھی ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کراچی کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا بلکہ اس نے اور ایم کیو ایم نے مل کر پہلے کوٹا سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کیا اور پھر جعلی اور متنازع مردم شماری کی منظوری دے کر کراچی دشمنی کی انتہا کر دی ۔انہوں نے کہا کہ حکمران شہر کی آدھی آبادی کھا گئے اور ڈکار تک نہیں لی ، نواز لیگ کے دور میں ہونے والی مردم شماری میں کراچی کے ساتھ بڑا فراڈ ہوا اور ہماری آدھی آبادی کو غائب کر دیا گیا ، پی ٹی آئی نے بھی اس مردم شماری کو درست نہیں کیا اور کراچی کے ساتھ مزید ظلم و زیادتی اور حق تلفی کی راہ ہموار کی ، اس ظلم و زیادتی اور حق تلفی پر ایم کیو ایم نے خاموشی اختیار کی اور وہ ہنوز وفاقی حکومت میں شامل ہے ، پیپلز پارٹی بھی کراچی سے صرف وسائل لینے اور لوٹ مار و کرپشن کرنے کے لیے تو آگے آجاتی ہے لیکن جب 3 کروڑ شہریوں کے جائز اور قانونی حق کی بات کی جائے تو عصبیت کا مظاہرہ کرتی ہے ، ستم ظریفی یہ ہے اور حکمران جماعتیں بھی کہتی ہیں کہ اس مردم شماری میں فوج شامل تھی تو پھر کراچی کے عوام فوجی اداروں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کر یں اور درست اعداد و شمار اور اصل حقائق کی روشنی میں اہل کراچی کو ان کا جائز اور قانونی حق دلائیں ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ مردم شماری میں موجود سقم اور تضادات کو ہم نے بروقت اُجاگر کیا تھا اور احتجاج بھی کیا تھا ۔ عدالتی فیصلہ بھی تھا کہ کراچی میں 5فیصد بلاکس دوبارہ کھولے جائیں گے مگر اس پر عمل نہیں ہوا اور وفاقی کابینہ نے بھی حتمی منظوری دے دی ، سی سی آئی کے اجلاس میں اسے زیر التوا رکھا گیا ، سوال ہے کہ سی سی آئی کے بغیر اس کی حتمی منظوری کیسے دی جا سکتی ہے ۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ کئی بلاکس میں آبادی ، ووٹرز کی تعداد سے کم ظاہر کی گئی ہے اور بعض بلاکس میں صفرگھرانے اور صفر آبادی ہے ، ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے ، نادرا کے پاس سارا ریکارڈ اور ڈیٹا موجود ہے لیکن اصل مسئلہ حکمران طبقے کی ذہنیت اور حکمران جماعتوں کی سوچ کا ہے ، یہ کراچی کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں ، اسی لیے اس کی نمائندگی کو کم سے کم ظاہر کرتے ہیں ، کراچی کی آواز بلند ہوتی ہے تو پورا ملک گونج اُٹھتا ہے لیکن ایک سازش اور منصوبے کے تحت کراچی کی آواز اور حقیقی نمائندگی کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے ،جب شہر کی آبادی کو ہی درست شمار نہ کیا جائے گا تو پھر قومی اور صوبائی سطح پر وسائل کی درست اور جائز تقسیم کیسے ممکن ہو سکے گی ، حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ3 کروڑ آبادی والے شہر میں ٹرانسپورٹ کا عملاً کوئی نظام نہیں ، ملک کے سب سے بڑے شہر کے لوگ چنگ چی رکشوں اور کوچوں کی چھتوں پر چڑھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں ، صرف ایک گرین لائن منصوبہ تک مکمل ہونے کو نہیں آرہا ، ماضی میں شہر کے اندر کے ٹی سی کی ہزاروں بسیں چلتی تھیں ، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر پورا ادارہ تباہ کر دیا ، کے ٹی سی جب بند ہوئی اس وقت سندھ میں ایم کیو ایم کا وزیر ٹرانسپورٹ ہو تا تھا ، 1999ء میں سرکلر ریلوے بند ہو ئی اس وقت بھی ایم کیو ایم عروج پر تھی ۔ ایم کیو ایم ، اس کے دھڑے اور اس سے نکلنے والے آج کراچی کے لیے باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن پہلے یہ بتائیں کہ انہوں نے خود اپنے دور میں کراچی کے لیے کیا کیا ؟ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں شروع کیے گئے منصوبے اور پروجیکٹ کے علاوہ شہر کے اندر کس نے تعمیر و ترقی کے اقدامات کیے ؟ انہوں نے پانی کا منصوبہ K-3مکمل کیا اور پھر K-4شر وع کیا جسے ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور اس وقت کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال نے مل کر تباہ و برباد کیا جو تاحال مکمل نہیں ہو سکا ہے ،کوٹا سسٹم میں غیر معینہ مدت کا اضافہ کیا گیا ان میں سے کسی نے آج تک اس کے خلاف کوئی بات نہیںکی۔ ان سب نے مل کر چائنا کٹنگ کی اور مال بنایا ، نوجوانوں کو کھیل کے میدانوں اور عوام کو پارکوں سے محروم کیا ، آج یہ کراچی کے عوام کے ہمدرد بنتے ہیں ،حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ غریب اور مڈل کلاس کے طلبہ و طالبات کے لیے تعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں ، سرکاری تعلیمی ادارے اور اسکولز بدانتظامی اور حکومتی نا اہلی کے باعث تباہی کے دہانے پر ہیں ، میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے کراچی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی کی گئی ، طلبہ و طالبات اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں ، جماعت اسلامی ان کے ساتھ ہے اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہے گی ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جماعت اسلامی نے عوام کی ترجمانی کی ہے ۔ مسائل کے حل میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔ ہمیں جب بھی موقع ملا عوام کو ہر کز مایوس نہیں کریں گے ، اقتدار اور حکومت میں نہ ہونے کے باوجود ہم نے عوام کی خدمت کی ہے ۔ کورونا کی وبا اور بارش کی تباہ کاریوں میں متاثرین کی بحالی اور امداد کے لیے الخدمت کے رضاکاروں اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے جان کی پروا کیے بغیر آگے بڑھ کر کام کیا ہے ۔ الخدمت نے طبی سہولیات فراہم کرنے ، کووڈ 19کے سستے ٹیسٹ کر نے اور ضرورت مندوں کو ان کی ضروریات کی فراہمی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک جاری ہے اور ہم عوام کے مسائل کے حل اور شہر قائد کے جائز اور قانونی حق حاصل کرنے تک جدو جہد جاری رکھیں گے ۔ دھرنوں سے جماعت اسلامی کراچی کے نائب امرا ڈاکٹر اسامہ رضی،عبد الوہاب،ڈاکٹر واسع شاکر، مسلم پرویز،راجا عارف سلطان، انجینئر سلیم اظہر، محمد اسحاق خان،سیکرٹری کراچی منعم ظفر خان،امرائے اضلاع وجیہ حسن،فاروق نعمت اللہ،محمد یوسف،سید عبد الرشید،مولانا مدثر حسین انصاری،مولانا فضل احد حنیف،توفیق الدین صدیقی،محمد اسلام، عبدالجمیل خان،سیف الدین ایڈووکیٹ اور سیکرٹری ضلع شرقی ڈاکٹر فواد نے بھی خطاب کیا۔ دھرنے ضلع وسطی میں ڈالمن مال حیدری، امتیاز اسٹور ناظم آباد،ناگن چورنگی،نارتھ ناظم آباد،ضلع گلبرگ وسطی میں لیاقت آباد نمبر 10،عائشہ منزل چورنگی،واٹر پمپ چورنگی،گلبرگ چورنگی،پاور ہاؤس،شفیق موڑ ،نالہ اسٹاپ،نیو کراچی،ضلع شمالی 4.Kچورنگی،سرجانی ٹائون،نارتھ کراچی،الآصف اسکوائر سہراب گوٹھ،ضلع شرقی میں ملینیم شاپنگ مال جوہر موڑ،جوہر چورنگی،صفورا چوک،ڈسکو بیکری گلشن اقبال،یونیورسٹی روڈ حسن اسکوائر،ضلع جنوبی میں ماڑی پور روڈ لیاری نزد غلامان عباس اسکول، گارڈن،آگرہ تاج،کالاپل، ریگل چوک صدر،ضلع غربی میں اورنگی ٹاؤن5نمبر،شیل پیٹرول پمپ فقیرکالونی،قلندریہ ہوٹل کٹی پہاڑی قصبہ کالونی،گرم چشمہ منگھوپیر،ضلع کیماڑی میں بنارس چوک، گلبائی چوک، 24مارکیٹ بلدیہ،سائٹ، پاک کالونی،ضلع ائر پورٹ میں مین نیشنل ہائی وے کالابورڈ،سعودآباد چورنگی،شمع شاپنگ سینٹر،پی آئی اے سوسائٹی گیٹ نمبر 3،کھوکھرا پار،شاہ فیصل کالونی، مدینہ چوک،میمن گوٹھ،ضلع ملیر میں اسپتال چورنگی،بھینس کالونی، ڈی سی آفس،لعل آباد موڑ،اللہ والی چورنگی گلشن حدید،ضلع کورنگی میں امتیاز سپر مارکیٹ قیوم آباد،ڈی سی آفس کورنگی ڈھائی نمبر،لانڈھی نمبر 6مارکیٹ،ضلع قائدین میں شاہراہ قائدین نزد نورانی کباب،لسبیلہ چوک،پرانی سبزی منڈی شاہ ژوب ہوٹل سمیت دیگر مقامات پر دیے گئے۔دھرنے کے شرکا نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جن پر تحریر تھا کہ پانی و سیوریج کے مسائل حل کرو،گیس کی بندش ختم کرو، کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے حقیقی الاٹیز کو جائز حق دیا جائے ،کراچی کے نوجوانوں کو ملازمتیں دی جائیں،کراچی کو ترقیاتی بجٹ دو،کھیل کے میدانوں سے قبضہ ختم کرو،تباہ حال سڑکیں ٹھیک کرو، لولی پاپ نہیں بااختیار شہری حکومت ،11سو ارب روپے کا پیکج سیاسی شعبدہ بازی ،ٹیکس پورا گنتی آدھی نامنظور نامنظور ،کچی آبادی کے مسائل حل کرو،کچرے کے ڈھیر صاف کرو، سندھ کے کرپٹ حکمرانو کراچی کو صوبے کا حصہ کیوں نہیں سمجھتے ؟، کوٹا سسٹم میرٹ کا قتل عام، عظیم آباد کوآپریٹیو ہاؤسنگ اسکیم 33 ایڈمنسٹریٹر اور لینڈ مافیا کا گٹھ جوڑ نہیں چلے گا ۔ شرکا نے کراچی کے جائزو قانونی حقوق ، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور مسائل کے حل کے لیے پُر جوش نعرے بھی لگائے ۔ جن میں یہ نعرے شامل تھے ۔’’حق دو کراچی کو ، پورا ٹیکس اور آدھی گنتی نامنظور نامنظور، 3 کروڑ عوام کا نعرہ مردم شماری دوبارہ،وفاق کے ارادے چکناچور آدھی گنتی نامنظور، وفاق کا خواب چکنا چور آدھی گنتی نامنظور ، لولی پاپ نہیں بااختیار شہری حکومت، کوٹا سسٹم ختم کرو، کراچی کے نوجوان بے روزگار کیوں؟، اتحادی جماعتوں کی سیاست بازی نہیں چلے گی ، کراچی کا مطالبہ مردم شماری دوبارہ‘‘۔



Comments