جنات کا سایہ یا پھر شیزوفرینیا کی بیماری



Symbolbild - Schizophrenie, Angststörung

میں شاید پندرہ سال کی تھی، جب میری ایک رشتہ دار نے اپنے آپ کو باتھ روم میں بند کر کے آگ لگا لی تھی۔ رمضان کے دن تھے، جب سحری کے وقت یہ خبر ایک فون کال کے ذریعے ہمارے گھر پہنچی۔




بچپن سے سن رکھا تھا کے ان کو جن چمٹ چکا ہے، اس ہی لیے اکثر سنا تھا کے وہ تنہا کمرے میں بیٹھی ہوئی کسی سے باتیں کرتی ہیں۔ کبھی کبھی بے وجہ ہنسنے لگتی ہیں اور کبھی کوئی بھی چیز اٹھا کر بے وجہ کسی کو مار دیتی ہیں۔

میری کزن کے مطابق، یہ سب کام ان سے وہ جن کرواتا ہے، جس نے ان کو قبضے میں کیا ہوا ہے۔ اکثر جب بھی وہ ہمارے گھر آئیں یا امی کے ساتھ ان کے گھر جانا ہوا، تو مجھے ان سے خوف آتا تھا، حالانکہ وہ ایک بے انتہا محبت کرنے والی انسان تھیں۔ لیکن محبت بھرے انداز میں ان کا مجھے مخاطب کرنا میرے لیے مشکل بن جاتا تھا۔ امی سے فوری طور پر وہاں سے چلنے کے لیے ضد کرنے لگتی تھی۔ ذہن پر یہ سوار تھا کے ان کے پاس جن ہے، لہذا کبھی رک کر ان کی شفقت کا جواب محبت سے نہیں دیا۔

یہاں تک کے ہر شخص ہی ان سے کتراتا تھا۔ بہت سے مذہبی اسکالرز، عالم اور عاملوں کے علاج سے بھی ان کا وہ جن نہ اتر سکا۔ پھر ایک دن یہ خبر ملی کے انہوں نے خود پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا لی ہے۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور میں یونیورسٹی کے پہلے سال میں داخل ہو گئی۔ میری اس رشتہ دار کی اندوہ ناک موت کی یاد پر بھی وقت کی گرد جمتی گئی۔ لیکن ایک دن جب میری یونیورسٹی کی ایک کلاس فیلو نے اپنے منگیتر کے ذہنی مرض کے بارے میں مجھے بتایا تو مجھے ایک دھچکا سا لگا۔

 DW Urdu Bloggerin Sana Batool

بلاگر ثناء بتول

اس دوست کی منگنی ختم ہو رہی تھی اور وہ سخت پریشان تھی۔ اس نے بتایا کے اس کے منگیتر نے کچھ عجیب رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ کبھی ساتھ گاڑی میں جا رہے ہوں تو کہتا ہے کے کوئی ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔ کبھی بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کے اس کے منگیتر نے تین دن سے کھانا نہیں کھایا اور اس کی وجہ وہ عورت ہے، جو اسے کہتی ہے کے کھانا کھاؤ گے تو تمھارے جسم میں موجود کیڑوں کو غذا ملے گی اور وہ تندرست ہو جائیں گے۔

وہ جیسے جیسے مجھے یہ باتیں بتا رہی تھی، ویسے ویسے ذہن پر سے گرد ہٹنے لگی۔ لیکن جیسے ہی اس نے یہ بات بتائی کے اس کے منگیتر کو شیزوفرینیا ہے۔ میں حیرت میں ڈوبتی چلی گئی۔ کیا یہ سارے سیمپٹمز ہونے کی وجہ یہ ذہنی بیماری ہے؟

یعنی میری ان رشتہ دار کا مجھ سے محبت سے ملنا اور ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کرنا دراصل جن کی وجہ سے نہیں بلکہ اس ذہنی مرض کی وجہ سے تھا جو ان کو اندر ہی اندر ختم کر رہا تھا۔ وہ کس کیفیت سے گزر رہی تھیں، شاید یہ تو کوئی بھی نہ بتا سکے سوائے اس کے جو اس کیفیت سے گزرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد، جو ذہنی امراض میں مبتلا ہو ں، اکثر عاملوں،  دم درود کرنے والوں کے رحم و کرم پر ڈال دیے جاتے ہیں۔

شیزوفرینیا کیا ہے؟

اس سوال کا جواب مجھے اس وقت ملا، جب میں نے اپنے آس پاس اس مرض سے گزرنے والے افراد اور ان کے گھر والوں، رشتے داروں سے اس کے بارے میں سنا۔ اکثر افراد  اس کو ذہنی مرض سمجھنے کے باوجود اس بات پر بھی  یقین رکھتے تھے کے مریض پر جنات کے اثرات بھی موجود ہیں، اس لیے ساتھ ساتھ عاملوں سے بھی علاج کروایا جائے۔

میں نے جب پہلی بار اس مرض کے بارے میں پڑھا تو مجھے پتہ چلا کہ شیزو فرینیا کا مریض دراصل کس کیفیت سے گزرتا ہے۔ ایسا مریض بیشتر ذہنی کیفیات سے دوچار ہوتا ہے، جس میں مختلف رویے اور احساسات بیک وقت ظاہر ہو سکتے ہیں۔

غیر حقیقی خیالات

شیزوفرینیا کے مریضوں میں وہم کی کیفیت اس قدر شدت اختیار کر لیتی ہے کے وہ اصل اور وہمی خیال کے بیچ فرق نہیں کر پاتا۔ اکثر مریض یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کوئی قریبی رشتے دار ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے یا پہنچانا چاہتا ہے۔ کچھ افراد یہ بھی سوچنے لگتے ہیں کے ان کے پاس ایسی قوت آگئی ہے، جس کی وجہ سے وہ کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں یا پھر کوئی بھیانک واقعہ پیش آنے والا ہے، جس کے خیال سے مریض شدت غم کا شکار ہو جاتے ہیں۔

وہم و ہذیان

یہ ایک ایسی کیفیت ہے، جس میں مریض ایسی چیزوں کو دیکھنے لگتا ہے، جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتیں۔ وہم انسانی شکل میں بھی ہو سکتا ہے، جو کہ مریض کے لیے حقیقت ہوتا ہے جبکہ زیادہ تر یہ وہم آواز کی صورت میں مریض پر عیاں ہوتا ہے اور یہ شیزوفرینیا کی ایک بہت عام علامت تصور کی جاتی ہے۔

بے ترتیب گفتگو

شیزوفرینیا کا مریض ایسی گفتگو بھی کر سکتا ہے،جس میں جملے کا کوئی معنی سامنے نہ آئے۔ اس کی وجہ منتشر سوچ ہوتی ہے، جو جملے کو مکمل نہیں ہونے دیتی اور ایسے میں اکثر مریض کی بات سمجھ نہیں آتی۔

احساسات کا ختم ہو جانا

شیزوفرینیا کی سب سے تکلیف دہ علامت مریض میں احساسات کا ختم ہو جانا ہے، جس کی وجہ سے مریض کے قریبی رشتے دار شدید تکلیف سے گزر سکتے ہیں۔ اس میں چہرے کے تاثرات کا اچھی یا بری خبر سننے کے باوجود ظاہر نہ ہونا، مریض کا اپنے قریبی رشتے دار سے آنکھیں نہ ملانا، کسی کو نقصان پہنچانا، بات کرتے ہوئے جملوں میں اتار چڑھاو کا ختم ہو جانا شامل ہیں۔

اگر برصغیر میں رہنے والے کسی بھی شخص کو ان علامات سے آگاہ کیا جائے تو وہ اسے آسیب، بھوت پریت سے جوڑنے میں ہرگز بھی کوئی وقت ضائع نہیں کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہتر رویے، ادویات اور تھیراپی کے ذریعے مریض بہتر محسوس کر سکتا ہے اور ایک عام انسان کہ طرح معاشرے کا حصہ بھی بن سکتا ہے۔

  • تاریخ 28.01.2021

  • مصنف ثناء بتول



 

Comments

  1. اس مرض کے بہت ہی قابل ڈاکٹر آغا خان کے ڈاکٹر محمد حنیف مسیح ماہر نفسیات ہیں۔
    اور معذرت کے ساتھ کراچی نفسیاتی ہسپتال صرف لوٹنے کی جگہ ہے!

    ReplyDelete

Post a Comment