سود کیخلاف کیس میں اسٹیٹ بینک کا تا خیری حربہ ، وکیل غائب

 



 

لاہور;30 نومبر کو چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ نور محمد مسکن زئی کی صدارت میں تین رکنی بنچ جسٹس شوکت علی رخشانی ، ڈاکٹر سید انور نے سود کے خلاف کیس کی سماعت کی۔سما عت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گزشتہ تاریخ پر اس عدالت کے دائرہ سماعت پر تمام فریقوں کا موقف آچکا ہے اور آج اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنا مؤقف دینا تھا اس پر سلمان اکرم راجہ کی طرف سے خاتون وکیل نے کہا کہ آج عدالت میں حاضر نہیں ہو سکتے جس پر عدالت نے اسٹیٹ بینک کو آئندہ تاریخ پر اپنا موقف پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ سوموار تک ملتوی کر دی ۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اور پروفیسر محمد ابراہیم خان نے وفاقی شرعی عدالت میں حرمت سو د پٹیشن کے دوبارہ آغاز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سود قرآن و حدیث کے لحاظ سے حرام قطعی ہے اور یہ واحد گناہ ہے جس پر اللہ رب العزت اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل
38-F
حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ رفوری طور پر معیشت کو سُود سے پاک کرے۔ انہوں نے کہا کہ 1991ء میں بھی وفاقی شرعی عدالت نے ایک تاریخی فیصلہ دے چکی ہے جس کی تائید سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلٹ بنچ نے 1999ء میں کرتے ہوئے اسے برقرار رکھا۔ بعدازیں ریویوبنچ نے اس فیصلہ کو واپس بھیجا۔ انہوں نے اپنے بیان میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اور معزز جج حضرات سے اپیل کی کہ اس اہم کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے اور حکومت اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے تاخیری حربے اختیار کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ سماعت کے موقع درخواست گزاران کے وکلاء قیصر امام ایڈووکیٹ ،امداداللہ ایڈووکیٹ ،سیف اللہ گوند ل ایڈووکیٹ ،یونس سنہوترا ایڈووکیٹ ، محمد ابراہیم خان ایڈووکیٹ ،ڈاکٹر فرید پراچہ اور عدالتی معاونین ڈاکٹر عتیق الظفر، ڈاکٹر طفیل سمیت دیگر وکلا اور درخواست گزاران عدالت میں موجود تھے۔



Comments