امریکا نے دنیا کو دائو پر لگا رکھا ہے

 

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارا ملک دائو پر لگا ہوا ہے ایساپہلے کبھی نہیں ہوا ۔ وہ ڈیموکریٹس پر برس رہے تھے کہ ان کی جانب سے خطرہ لا حق ہے ۔ اگرچہ وہ ڈیموکریٹس کی جانب سے اپنے مواخذے کی بات پر برہم ہیں لیکن امریکی صدر نے سابق امریکی صدور کی پیروی کرتے ہوئے اپنی قوم کو بیوقوف بنانے کی روایت بر قرار رکھی ۔ امریکی روایتی طور پر امریکا پرست ہیں ۔ ان کو متحد اور منظم کرنے یا کسی کے خلاف ان کے جذبات بھڑکانے کے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ہمارا ملک خطرے میں ہے ۔ جب9/11 ہوا تھا تو جارج بش نے کہا تھا کہ امریکا کے خلاف صلیبی جنگ چھڑ گئی ہے ۔ اس سے قبل دوسری جنگ عظیم کا اعلان بھی ان ہی الفاظ سے کیا گیا تھا لیکن نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر دنیا پر حکمرانی قائم کرنے کے منصوبے میں یہ بات خاص طور پر شامل کی گئی تھی کہ امریکیوں کی طرز زندگی سے مسلمان نا خوش ہیں اور وہ اسے بدلنا چاہتے ہیں ۔ 9/11 کے موقع پر اور اس کے بعد امریکی حکام مسلسل یہی دعوے کرتے آ رہے ہیں کہ امریکا خطرے میں ہے ۔ میڈیا کی طاقت اس قدر ہے کہ ہر امریکی کو یقین ہے کہ افغانستان میں بیٹھے طالبان ہی9/11 کے ذمے دار ہیں اس سے اختلاف رکھنے والی کسی بھی ہلکی پھلکی آواز کو زور دار قسم کے شور کے ذریعے دبا دیا جاتا ہے ۔بالکل یہی کیفیت پاکستان میں ہے ۔ میڈیا کے ذریعے جس کو دشمن قرار دیا جاتا ہے ملک کے عوام اسی کو دشمن تسلیم کر لیتے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے صدر نہیںجو اپنے ملک کے بارے میں یہ باتیں کر رہے ہیں حالانکہ یہ امریکا ہی تو ہے جس نے آج بھی ایک درجن سے زاید ممالک میں براہ راست امریکی فوج اتاری ہوئی ہے ۔ ان ملکوں میں امریکا براہ راست جنگ میںملوث ہے جبکہ تقریباً90 ممالک میں وہ بالواسطہ طور پر جنگوں کو ہوا دے رہا ہے ۔کہیں اسلحہ پہنچا رہا ہے کہیں دوپڑوسیوںکو لڑوا رہا ہے ۔ مشرق وسطیٰ کی ساری خونریزی کے پیچھے امریکا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ امریکا دائو پر لگاہوا ہے ۔ دائو پر تو دنیا لگی ہوئی ہے اور اس کا ذمے دار امریکا ہے ۔ عراق میں ہزاروں امریکی فوجی مروا کر ایران عراق ، شام ، یمن وغیرہ کو بارود کے حوالے کر دیا ۔ اب سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے سے لڑوانے کی پوری کوشش کی جار ہی ہے ۔ افغانستان میں 18 برس پٹنے کے بعد بھی دماغ درست نہیں ہوا۔ یہ امریکا کا تیسرا صدر سے جومسلسل جھوٹ بولنے میںمصروف ہے ۔ بش ، اوباما اور اب ٹرمپ سب نے یہی بات کہی کہ امریکا خطرے میں ہے ۔امریکیوں نے بھی کبھی یہ زحمت نہیں کی کہ امریکا ہزاروں میل دوربیٹھنے والوں سے کیونکر خطرے میں آ جاتا ہے اب تک امریکا کے حکمرانوں نے کسی مضبوط اور بڑی ریاست کے بارے میں نہیں کہا کہ اس سے امریکا کو خطرہ ہے بلکہ کبھی ایک تنظیم القاعدہ سے اسے خطرہ تھا کبھی داعش بنا دی اس سے خطرہ تھا ۔ کبھی ایک آدمی اسامہ بن لادن سے اسے خطرہ ہوتا ہے ۔ امریکی عوام میں بھی اتنا شعور نہیں یا انہیں اس جانب سوچنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا کہ ان کا حکمران کیا بول رہا ہے ۔ اربوں ڈالر کا بارود امریکی عوام کے ٹیکس کی رقم سے خریدا جاتا ہے اور افغانستان کے پہاڑوںمیں پھینک دیا جاتا ہے۔ کامیابیوں کی داستانیں ویت نام کی طرح ہیں جنگ کے اختتام پر 59 ہزار اموات کی تصدیق کی جاتی ہے ۔ اب تو عراق کے دس ہزار امریکیوں اور افغانستان کے 25 ہزار امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کو چھپایا جاتا ہے ۔ اگر امریکی حکمرانوں کے رویے کو سمجھنا ہو تو پاکستانی حکمرانوں کے رویے کا بغور مشاہدہ کرلیں ۔ اس وقت دنیا بھر کے حکمران وہی کر رہے ہیں جو امریکی حکمران کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی حکمران عوام کو سوچنے کا موقع ہی نہیں دے رہے ۔ اپنی بے بنیاد باتوںکو چھپانے کے لیے میڈیا کو استعمال کرتے ہیں ایک بات کہی جاتی ہے اور سب اس کی تائید میں قوالی شروع کر دیتے ہیں ۔ پاکستانی میڈیا اس موقف سے بھرا پڑا ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر سے مودی لرز اُٹھا ،بھارتی فوج ڈر گئی اب کشمیر آزاد ہو جائے گا ۔ سنجیدہ طبقہ اس پر سر پیٹنے کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے ۔ لیکن ملک کی بھاری اکثریت کو یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ تقریر سے دنیا اپنا موقف بدل لے گی ۔ حالانکہ ایسا کبھی پہلے ہوا نہ اب ممکن ہے ۔ ڈونلڈ ٹرپ کی جانب سے بھی امریکا کو دائو پر لگائے جانے کی بات اس وقت کہی گئی ہے جب ان کی اپنی حکومت کو خطرہ لا حق ہوا ہے ۔ یعنی ان کے مواخذے کی راہ ہموار ہورہی ہے ۔ ویسے امریکی اتنے سمجھدار ہیں کہ مواخذہ ضرورکریں گے ۔ تنبیہ کر دیںگے یا زیادہ سے زیادہ استعفیٰ لے لیں گے لیکن ان کے پاس نیب ہے نہ ایف آئی اے ہے اور نہ اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل کہ سابق حکمران کو وہاں بندکر کے اس کے اے سی اورپنکھوں کے کنکشن نکالتے پھریں ۔ اگر خدا خدا کر کے مواخذہ ہو بھی رہا ہے تو صرف ٹرمپ کا جب کہ گزشتہ تینوں صدور کا مواخذہ ہونا چاہیے ، امریکا کے تحفظ کے نام پر انہوں نے ساری دنیا کو غیر محفوظ کر ڈالا ہے ۔

اداریہ -روزنامہ -جسارت

Comments