نہرو۔ لیاقت معاہدہ1950 : -اقلیتوں کے تحفظ کی کوشش :::: سعید حمید i


پندرہ اگست ۱۹۴۷ء سے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہی نہیں بڑے خطرناک تھے۔تقسیم 
ہند کے پس منظر میں فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے تھے۔
تقسیم کے بعد لاکھوں افراد مارے گئے، لاکھوں تباہ و برباد ہوگئے، اپنا وطن چھوڑ کر مہاجر بننے پر مجبور ہوئے۔
دسمبر ۱۹۴۹ء میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور صنعت کا رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔آبادی کی منتقلی کا سلسلہ جاری رہا، اس کے ساتھ قتل عام، لوٹ مار، اغوا، عصمت دری کی مجرمانہ حرکتوں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔اقلیتیں محفوظ نہیں تھیں، سرحد کے اِس پار بھی، سرحد کے اْس پار بھی۔
اقلیتوں کو سرحدوں کی دونوں جانب شک و شبہ کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا۔اِس ماحول میں دونوں ممالک میں خوف و دہشت کا عالم تھا۔ اس بات کا بھی خطرہ لاحق تھا کہ دونوں ممالک میں کہیں جنگ نہ چھڑ جائے۔
دی ہندو (مورخہ ۷؍اپریل ۲۰۱۶ء) میں شائع محقق ارچنا سبرامینیم کے مضمون کے مطابق ایسے میں پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پیش قدمی کی۔انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان معاملات کو حل کرنا بہت ضروری ہے، انہوں نے ایک بیان جاری کیا، جس میں ان سنگین حالات و معاملات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔انہوں نے ساتھ ہی وزیر اعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو کو ملاقات کی پیش کش بھی کی تاکہ دونوں وزرائے اعظم مل کر یہ مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ وزیر اعظم نہرو نے بھی مثبت جواب دیا، جس کے نتیجہ میں پنڈت نہرو اور لیاقت علی خان کے درمیان ۲؍اپریل ۱۹۵۰ء کو دہلی میں ملاقات ہوئی۔چھ دن بعد دونوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، اسے ’’معاہدۂ دہلی‘‘ یا ’’نہرو۔ لیاقت معاہدہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
دونوں ہند و پاک وزرائے اعظم کی یہ کوشش تھی کہ دونوں ممالک میں اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔دونوں ممالک میں فرقہ وارانہ صورتحال جو بگڑتی جا رہی تھی، اس کو سنبھالاجائے، فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پایا جائے اور امن کا ماحول قائم کیا جائے۔
اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جب دہلی میں یہ تاریخی معاہدہ ہوا، تب ملک کے نائب وزیر اعظم کے عہدے پر سردار ولبھ بھائی پٹیل ہی فائز تھے، اور ان کے اختیار میں وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری تھی۔ اس معاہدہ کے آٹھ مہینے بعد دسمبر ۱۹۵۰ء میں سردار پٹیل کا انتقال ہوا۔
نہرو۔ لیاقت معاہدہ پر نہرو کابینہ میں شامل ہندو مہا سبھا کے ہمدرد اور نمائندے سمجھے جانے والے وزراء ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی جو اس وقت وزیر صنعت تھے اور کے سی نیوگی نے بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا، لیکن سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ہی ان دونوں کو سمجھایا بجھایا اور استعفیٰ دینے سے روکا۔ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نے اکھنڈ بھارت کی بات کہی اور اس معاہدے کی شدید مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ صرف جنگ کے ذریعہ ہی پاکستان کو ختم کرکے اکھنڈ بھارت بنایا جا سکتا ہے۔
البتہ ششی تھرور (’’دی ہندو‘‘ مورخہ ۲۵؍اپریل ۲۰۰۴ء) سمیت مؤرخین نے لکھا ہے کہ سردار پٹیل کا آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں رویہ مشکوک تھا، اور وہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک و شبہ بھی کیا کرتے تھے۔ ششی تھرور کا کہنا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کے درمیان جو نظریاتی فرق تھا وہ ہندوستانی مسلمانوں کے بطور اقلیتی فرقے سے برتاؤ کے متعلق تھا۔دونوں ہی اپنے قائد مہاتما گاندھی کی طرح ملک کو متحد رکھنے کے قائل تھے لیکن تقسیم کے بعد سردار پٹیل بھارت کو ایسے ملک کے طور پر دیکھناچاہتے تھے جو ہندو اکثریت کے مفادات کی نگہبانی کرے۔ جبکہ نہرو دو قومی نظریہ کو قطعی مسترد کرتے تھے۔
سردار پٹیل کی نظرمیں ہندوستانی مسلمانوں کی کیا حیثیت تھی؟ اس سلسلے میں ششی تھرور نے اپنے مضمون میں مؤرخ سرو پلی گوپال کے الفاظ دہرائے جنہوں نے کہا کہ ’’سردار پٹیل ہندوستانی مسلمانوں کو یرغمال (HOSTAGES) سمجھتے تھے، جن کو پاکستانی ہندوؤں کے ساتھ اچھے برتاؤ کے لیے سیکورٹی میں لیا جاسکتا ہے۔
نہرو۔ لیاقت معاہدہ کو سردار پٹیل کی حمایت حاصل تھی، یہ بات ششی تھرور نے کہی اور بتایا کہ سردار پٹیل نے گاندھیائی انداز میں اس معاہدہ کی حمایت کی۔ سردار پٹیل کا کہنا تھا کہ حالانکہ مسئلہ مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کے ساتھ غلط برتاؤسے شروع ہوا تھا لیکن مغربی بنگال (ہندوستان) میں اس کا بدلہ مسلمانوں سے لے کر ہندوؤں نے بھی اس معاملہ میں اخلاقی جواز، چاہے وہ فوجی کارروائی ہو یا پاکستا ن کے ساتھ کوئی عمل، کھو دیا۔ جو لوگ سردار پٹیل کو آر ایس ایس کا ہمدرد اور کٹر وادی سمجھتے تھے انہیں اس موقف پر سخت حیرت ہوئی لیکن جو لوگ جانتے تھے کہ سردار پٹیل زندگی بھر گاندھی وادی رہے، انہیں کوئی تعجب نہیں ہوا۔
بہر کیف، تقسیم ہند کے کربناک حالات کے پس منظر میں دونوں ممالک کے درمیان ۸؍اپریل ۱۹۵۰ء کو دہلی میں جو معاہدہ ہوا، اُسے نہرو۔ لیاقت معاہدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ ایک ایسی دستاویز ہے، جس پر تب سے آج تک دونوں ممالک میں ایمانداری سے عمل کیا جاتا تو نفرت کی سیاست کرنے والے سیاسی سوداگروں کی سرحد کے دونوں جانب دکانیں بند ہو سکتی تھیں۔

نہرو۔ لیاقت معاہدہ؟

اقلیتوں کی حفاظت اور حقوق کے متعلق حکومت ہند اور حکومت پاکستان کے درمیان نئی دہلی میں مورخہ ۸؍اپریل ۱۹۵۰ء کو جو معاہدہ عمل میں آیا، اسے (وزارت خارجہ کی دستاویز کے مطابق) نہرو۔ لیاقت معاہدہ کہا جاتا ہے۔
اس معاہدہ کی تفصیلات حسب ذیل ہیں؛
(الف) حکومت ہند اور حکومت پاکستان سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ؛
۱) ان کی مملکت میں اقلیتوں کو ان کے مذاہب سے قطع نظر شہری کے یکساں حقوق حاصل رہیں گے۔
۲) ان اقلیتوں کی جان، مال، جائیداد، ثقافت، ذاتی وقار، کی حفاظت و سلامتی، کے ساتھ پورے ملک میں نقل و حرکت کی آزادی، پیشہ و روزگار کی آزادی، تحریر و تقریر کی آزادی، عبادت کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی بشرط یہ کہ ان سے اخلاق و قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔
۳) اقلیتی فرقوں کے ممبران کو بھی ملک کے دیگر اکثریتی طبقات کے ساتھ امورمملکت میں شمولیت کے مساوی مواقع فراہم ہوں گے، وہ سیاسی عہدہ سنبھال سکیں گے، سول اور آرمڈ فورسز میں بھرتی ہوکر ملک کی خدمت کر سکیں گے۔
۴) دونوں ہی حکومتیں یہ اعلان کرتی ہیں کہ اقلیتوں کے یہ حقوق بنیادی حقوق میں شامل ہیں اور ان کے موثر نفاذ کا عہد کرتی ہیں۔
وزیر اعظم ہند نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دستور ہند میں یہ اقلیتی تحفظات کی دفعات پہلے ہی سے شامل ہیں، اور اقلیتوں کے حقوق کی دستور ہند میں ضمانت دی گئی ہے۔وزیر اعظم پاکستان نے بتایا کہ اسی طرح کی تجاویز پاکستانی دستور ساز اسمبلی کے لیے آبجیکٹیوز ریزولوشن میں بھی منظور کی گئی ہیں۔
دونوں حکومتوں کی یہ پالیسی ہے کہ ان جمہوری حقوق سے مستفیض ہونے کا موقع بلا کسی امتیاز تمام شہریوں کو یقینی طورپر ملنا چاہیے۔
۵) دونوں حکومتوں کی خواہش ہے کہ وہ اس بات پر زور دیں کہ اقلیتی طبقات کی وفاداریاں ان ممالک کے ساتھ ہی ہوں گی جن کے وہ شہری ہیں، اور انہیں اپنی شکایات کے حل کے لیے اپنے ہی ممالک کی حکومتوں کی طرف دیکھنا ہوگا۔
(ب) مشرقی بنگال، مغربی بنگال، آسام، تریپورہ کے مہاجرین کے بارے میں جہاں حال ہی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے،دونوں ممالک کی حکومتیں اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ:
۱) ٹرانزٹ، گزرنے کے دوران مکمل سیکورٹی اور نقل و حرکت کی آزادی فراہم کی جانی چاہیے۔
۲) مہاجرین کو یہ آزادی ملنی چاہیے کہ جس قدر اپنا مال و اسباب نکال سکیں، نکال لیں۔منقولہ جائیداد میں ذاتی زیورات بھی شامل ہوں گے۔زیادہ سے زیادہ نقد رقم فی بالغ مہاجر ڈیڑھ سو روپے اور فی نابالغ مہاجر بچھتر روپے رکھنے کی اجازت ہوگی۔
۳) اگرکوئی مہاجر یہ نقدی اور زیورات خود نہیں لے جانا چاہتا ہے تو اسے بنک میں جمع کرسکتا ہے۔
۴) کسٹم حکام انہیں پریشان نہیں کریں گے۔اس کی ضمانت کے لیے کسٹم چوکیوں پر دوسرے ملک کے افسر بطور رابطہ کار تعینات رہیں گے۔
۵) مہاجرین کی غیر منقولہ جائیداد میں مالکانہ حقوق اور کرایہ دارانہ حقوق کی بھی حفاظت ہوگی۔اگر اس کی غیر حاضری میں کوئی اس کی جائیداد پر قبضہ کرلے تو یہ جائیداد واپس دلائی جائے گی بشرطیکہ مہاجر ۱۳؍دسمبر ۱۹۵۰ء سے پہلے واپس آجائے۔ اگر مہاجر زرعی زمین کا مالک یا کرایہ دار ہے تو اس کی بھی جائیداد اس تاریخ تک واپس آجانے پر اسے دلوائی جائے گی۔
کسی غیر معمولی کیس میں اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کسی مہاجر کو اس کی جائیداد واپس نہیں کی جائے گی تو پھر یہ معاملہ مشورہ کے لیے متعلقہ اقلیتی کمیشن کے سپرد کیا جانا چاہیے۔اگر مقرر تاریخ تک لوٹ آنے والے کسی مہاجر کی جائیداد لوٹانا ممکن نہ ہو تو پھر حکومت اس کی آبادکاری کرے گی۔
اس معاہدے کے باب سوم میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مشرقی بنگال، مغربی بنگال، آسام، تریپورہ کے حالات سدھارنے اور معمول پر لانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔ مجرمانہ جرائم میں شامل افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ جہاں جہاں ضروری ہو وہاں خصوصی عدالتیں بھی قائم کی جائیں۔ لوٹی ہوئی املاک و جائیداد ہر ممکن واپس لی جائیں۔ مغویہ عورتوں کو برآمد کرنے کے لیے فوری طور پر ایسی ایجنسی قائم کی جائے جن میں اقلیتی نمائندے بھی ہوں۔ جبری تبدیلیٔ مذہب کو قبول نہیں کیا جائے اور ایسی حرکتوں میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے۔
فسادات کی چھان بین کے لیے ہائی کورٹ کے جج کی نگرانی میں کمیشن آف انکوائری قائم کیا جائے۔اور اقلیت کے بھی ایسے افراد اس میں شامل ہوں جن سے انہیں حوصلہ ملے۔ یہ کمیشن ’’آئندہ ہنگاموں کو کیسے روکا جائے‘‘ اس کی بھی سفارشات پیش کرے۔
افواہیں اور غلط خبر پھیلانے والے افراد اور اداروں پر سخت نگرانی کی جائے اور ان پر ایکشن لیا جائے۔
اپنے ملک میں پڑوسی ملک کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈا کی اجازت نہیں دی جائے، یا دونوں کے در میان جنگ بھڑکانے یا ان کی جغرافیائی سلامتی کے خلاف پروپیگنڈا پر ایکشن لیاجائے۔
اس معاہدے کے ذریعے ایسے بھی اقدامات پر غور ہوا کہ دونوں ممالک کا ماحول نارمل بنایا جائے تاکہ مہاجرین کی اپنے اپنے وطن واپسی ممکن ہوسکے۔اس کے لیے دونوں ممالک کے ایک ایک وزیر کو متاثرہ حلقوں میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مشرقی بنگال اور مغربی بنگال کی کابینہ میں فوراً اقلیتی طبقہ کے ایک ایک وزیر کو شامل کرنے کا بھی فیصلہ کیاگیا۔
اس معاہدے کی تجاویز پر عمل کے لیے مشرقی بنگال، مغربی بنگال اور آسام میں ایک ایک اقلیتی کمیشن قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔جس کا چئیرمین ایک صوبائی وزیر اور اراکین میں اقلیتی فرقے کے افراد شامل ہوں۔پاکستان اور بھارت کے دو وزیر کمیشن کی کارروائیوں میں شریک رہیں گے۔اقلیتی کمیشن ضلع سطح کے اقلیتی بورڈز سے رابطہ میں رہے گا اور اس معاہدہ پر عمل در آمد کا اقلیتی کمیشن جائزہ لے گا۔
اس طرح پنڈت جواہر لال نہرو اور لیاقت علی خان نے اقلیتی طبقات کو مین اسٹریم میں شامل کرنے اورحالات کو نارمل کرنے کی کوشش کی، وہ تاریخ کا اہم حصہ ہے۔
(بحوالہ: ’’تحقیقات ایکسپریس ڈاٹ کام‘‘۔ ۲؍اپریل ۲۰۱۹ء)

Comments