جنگ
اور ایبولا جیسی خبروں کے پیچھے گھنے جنگل
میں گھرے جمہوریہ کانگو کو صحت کے پوشیدہ
مسائل کا سامنا ہے۔
سانپوں
کی مختلف اقسام سے بھرے جنگل والا کانگو
سانپ کے ڈنگ سے زخمی ہونے اور مرنے والوں
کا گڑھ بن گیا ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت
(ڈبلیو
ایچ او)
اور
دوسری تنظیموں نے بھی اس بحران کی تصدیق
کی ہے۔
فوٹوگرافر
ہیو کنسیلا کنینگھم کافی عرصے سے اس بحران
پر کام کر رہے ہیں۔ کسی بحران کی رپورٹنگ
کے لیے ہونے والی مقابلے پولیٹزر پرائز
کے لیے انھوں نے دنیا کے خطرناک ترین
سانپوں کی قریب سے تصاویر کھینچی ہیں۔
عالمی
ادارہ برائے صحت (ڈبلیو
ایچ او)
کی
رپورٹ کے مطابق ہر سال کم از کم 2.7
ملین
افراد سانپوں کے
زہر
کا نشانہ بنتے ہیں جن میں سے 81000
سے
137000
کا
انجام موت ہوتا ہے، جبکہ اعضا کاٹے
جانے
والے اور ہمیشہ کے لیے معذوری کا شکار
ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
دریائے
کانگو پر اکثر یہ سانپ مچھیروں کے جال میں
پھنس جاتے ہیں اسی لیے جال میں کوئی بھی
چیز پھنسنے
پر
مچھیروں کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔
فرنسز
نینسنجی نے، جو کانگو کے انٹی وینم سینٹر
میں ایک ٹیکنیشن ہیں، اس بات کو یقینی
بنایا کہ انتہائی خطرناک اقسام نڈھال یا آسانی سے بیمار نہ پڑ جائیں۔
سالوں
سے جاری تنازعات اور سیاسی بدعنوانی نے
کانگو کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا
ہے جس کے باعث سانپوں کے زہر کے اثرات کو
ختم کرنے والی ادوات کم ہیں یا انھیں لوگوں
تک پہنچانا تقریباً ناممکن ہے۔ زہریلے
سانپوں اور انسانوں کا قریب قریب رہنا
اور صحت کی سہولیات تک رسائی نہ ہونا
خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
کنینگھم
کہتے ہیں ’سب سے بہترین پورٹریٹ تب بنے
جب سانپوں نے کیمرہ لینس کا جائزہ لیا۔
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ انھیں کسی پنجرے
میں قید یا شیشے کے پیچھے سے دکھانے کے
بجائے ایک عارضی سٹوڈیو میں آزادی سے ویسے
ہی گھومتے دکھانا زیادہ
‘
’اہم ہے جیسے وہ
جنگل میں گھومتے ہیں۔سانپوں
کو ان دیکھے خطرے کے بجائے ایک کہانی بنانا
شاندار رہا لیکن فرنسز کے ساتھ کام کرنے
کا یہ فائدہ ہوا کہ ان کے سانپوں کے ساتھ
کام کرنے کے سالوں کے تجربے سے یہ واضح ہو
گیا کہ ایک غیرمتوقع سامنا بہت خطرناک
ثابت ہو سکتا ہے۔‘
ایک
مرا ہوا جیمسن ممبا۔ اس سانپ کو ایک رات
قبل ہی مقامی کسانوں نے مارا تھا۔
ممبا
انتہائی خطرناک سانپ ہے، اس کے ڈسنے کے
دو گھنٹے کے اندر اندر انسان کی موت واقع
ہو جاتی ہے۔
ایک
مچھیرے، شدراک کے کانٹے میں پھنسا ہوا
کوبرا۔ شدراک کی پوری زندگی دریا میں
مچھلیاں پکڑتے گزری ہے اور کئی بار انھیں
سانپوں نے ڈسا ہے لیکن خوش قسمتی سے ہمیشہ
وہ چھوٹے سانپ ہوتے تھے۔
بہت
سے افراد جھاڑیوں میں کام کرتے ہوئے سانپوں
کی مختلف اقسام سے ڈسے جاتے ہیں۔
اپنی
کھال کی وجہ سے نظروں نہ آنے والے سانپ
مثلاً کوبرا وغیرہ کا ڈنگ بھی خطرناک ہو
سکتا ہے۔
مونیق
اپنی زمین کا جائزہ لے رہے تھے جب انھیں
ایک سانپ نے ڈس لیا۔
مغربی
شہر ممبنڈاکا میں ایک روایتی حکیم سانپوں
کے ڈنگ کے لیے تیار کیا گیا اپنا نسخہ
دکھاتے ہوئے۔ جڑی بوٹیاں اور سانپ کے سر
کو ایک پاؤڈر کی طرح پیسا جاتا ہے اور پھر
اسے سانپ کے ڈنگ والی جگہ بلیڈ سے چھوٹے
چھوٹے زخم بنا کر لگایا جاتا ہے۔
یہ
روایتی نسخے کچھ ظاہری علامات تو کم کر
سکتے ہیں یا شاید وقتی آرام بھی دیں لیکن
یہ نقصان دہ بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور
پر پاؤڈر لگانے کے لیے بلیڈ سے چھوٹے چھوٹے
زخم بنانا انفیکشن کا باعث بھی بن سکتا
ہے۔ جڑی بوٹیاں روایتی حکیم اکھٹی
کرتے
ہیں
۔
ڈاکٹر
انورایت کو سانپوں کے اثرات کو ختم کرنے
والی ادویات تک کم یا بلکل رسائی نہیں اور
وہ صرف علامات کی تشخیص ہی کر ۔
- سکتی ہیں
سانپ
کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے۔۔ یہاں ممبنڈاکا
کی مکیلا مارکیٹ میں یہ 3000
سے
5000
کونگلیز
فرانک میں بک رہا
ہے۔
بی بی سی رپورٹ
Comments
Post a Comment