غرب اُردن کے الحاق کی سازش اور اسرائیل کا تاریک مستقبل : مرکز اطلاعات فلسطین

 

اسرائیل میں 9 اپریل کو ہونے والے کنیسٹ (پارلیمان) کےانتخابات میں ایک بار پھرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چہیتے بنیامین نیتن یاہو نے کامیابی حاصل کی ہے جس کے بعد آنے والےدنوں میں صہیونی ریاست کی سیاسی صورت حال واضح‌ہوگئی ہے کہ مستقبل میں حکومت نیتن یاہو، ان کی جماعت لیکوڈ اور دیگر انتہا پسند ہی بنائیں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کے انتہا پسند گروپوں‌کی کامیابی کےبعد تجزیہ نگاروں کا خیال ہےکہ نیتن یاہو اور ان کے سیاسی اتحادیوں کو مقبوضہ مغربی کنارے کو صہیونی ریاست میں‌ضم کرنےکا ایک اورموقع مل گیا ہے۔ فلسطین کے مقبوضہ عرب علاقوں کی صورت حال پر نظر رکھنےوالی ویب سائٹ عرب 48 کے مطابق نیتن یاہو کو اپنی تجاویز،اعلانات اور فیصلوں‌پرعمل کا موقع مل گیا ہے۔ انہوں‌نے انتخابات میں ووٹ لینے کے لیے جو وعدے کیےتھے وہ پورے کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔
نیتن یاہو کے لیے موقع
اسرائیل کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں کنیسٹ میں چوتھی بار کامیابی کو بنیامین نیتن یاہو کے لیے سنہری موقع قرار دیتی ہیں کہ وہ ایک بارپھر اسرائیل میں حکومت بنا کراپنی مرضی اور منشا کے فیصلے کرسکتےہیں۔ انہیں یہ کامیابی ایک ایسے وقت میں ملی ہے جب علاقائی اور عالمی سطح پر ان کے لیے حالات سازگارہیں۔ موجودہ امریکی انتظامیہ کی انہیں غیر مشروط اور اندھی حمایت حاصل ہے۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ اسرائیلی پالیسیوں کے حوالےسے لاپروائی اور کمزوری کا مظاہرہ تو ہمیشہ ہی سے کررہے ہیں جب کہ عرب ممالک ایک دوسرے کےخلاف صف آرا ہیں اور فلسطینیوں کی صفوں میں بھی انتشار پھیلاہوا ہے۔
اسرائیل کے جغرافیائی امور کے محقق شائول اریئیلی جو ایک سابق فوجی افسر ہیں کاکہنا ہےکہ اگر اسرائیلی حکومت غرب اردن کےسیکٹر ’سی‘ جو غرب اردن کے کل رقبے کا 60 فی صد ہے حالیہ صہیونی حکومتوں کی پالیسی میں جوہری تبدیلی کا عکاس ہوگا۔ ان کاکہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اسرائیلی حکومتیں مختلف حیلوں اور حربوں سے فلسطینی اور عرب علاقوں کو اسرائیلی میں ضم کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا رہی ہیں۔ غرب اردن اور دوسرے علاقوں میں یہودی کالونیوں کی تعمیرو توسیع، مشرقی بیت المقدس میں یہودیوں کے لیے تعمیرات، سڑکوں، ریلوے لائنوں کا قیام، دیوار فاصل کی تعمیر،اس کے ساتھ متوازی طور پر فلسطینیوں کے مکانات اور املاک کی مسماری اور فلسطینیوں اور اسرائیلی آبادی میں گہری تفریق اور امتیازی سلوک تمام ایسے اشارے ہیں جو غرب اردن کے علاقوں‌کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کی نشاندہی کرتےہیں۔
اخبار ہارٹز نے اریئیل کامضمون شائع کیا ہے جس میں‌ان کا کہنا ہے کہ گرین لائن کے قریب واقع یہودی کالونیوں میں‌کوئی فرق وامتیاز نہیں برتا گیا۔ ایسا لگ رہاہے کہ نیتن یاہو کی حکومت تبادلہ اراضی کے فارمولے کو بھی عملاً مسترد کرچکی ہے۔ مثال کے طورپر نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے نابلس میں 260 ملین شیکل کی لاگت سے بائی پاس روڈ کی تعمیر کی منظوری دی۔ یہ سڑک اپنے طور پرتعمیر کی گئی 4 یہودی کالونیوں کے 7500 آبادکاروں کو سہولت کے لیے بنائی گئی۔ مجموعی طور پر اس منصوبے پر 5 ارب شیکل کےاخراجات ہیں۔
قانونی الحاق
اریئیلی کا کہنا ہے کہ الحاق کی تجاویز کی منظوری اتنی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ فلسطینیوں کے تمام حلقوں نے امریکا کی متنازع صدی کی ڈیل کے منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں اسرائیلی حکومت غرب اردن کےقانونی الحاق کی پالیسی کو آگےبڑھائے گی۔ اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ صہیونی تحریک کا اصل مقصد اسرائیل کوایک یہودی ریاست بنانا جس میں یہودیوں کو اکثریت حاصل ہو۔ یہودی ریاست جمہوریت کےنام پر قائم ہو اور اس کے لیے تاریخی فلسطین کا پورا علاقہ قبضے میں لیا جائے۔ ان کا مزیدکہنا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے کےدوران صہیونی ریاست یہودی اکثریت کے حصول کے لیے کشمکش کا شکار رہی ہے۔ نیز یہ ریاست پورے فلسطین پرقائم کی جائے۔ ایسے میں صہیونی تحریک کےسامنے تین آپشن ہیں۔ اول یہ کہ پورے ارض اسرائیل پرایک غیر جمہوری یہودی ریاست کا قیام۔ دوسرا ارض فلسطین میں جمہوری اسرائیلی ریاست کاقیام اور تیسرا آپشن فلسطین کے کچھ علاقے پر یہودی جمہوری ریاست کا قیام ہے۔ اب تک صہیونی تحریک اور اسرائیلی حکومتیں اس تیسرے آپشن پرعمل پیرا رہی ہیں۔ تجزیہ نگار کے خیال میں نیتن یاہو اور ان کی کابینہ دو ریاستی حل کی تجویز کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر وہ ساتھ ہی یہ بھی جانتے ہیں کہ غرب اردن کے سیکٹر اے اور بی کے الحاق سے اسرائیل کے لیے سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
خطرناک صورت حال
اسرائیلی دانشوروں کا کہنا ہے کہ بعض اعتبار سے نیتن یاہو اوران کی حکومت کے لیے حالات مشکل بھی ہوسکتےہیں۔ اگر فلسطین اتھارٹی ناکام ہوتی ہے تو اردن اور مصر کے ساتھ جاری اسرائیلی کشیدگی اور بحران ختم نہیں ہوگا۔ یورپی یونین کی پالیسی کی بھی مخالفت کاسامناکرنا پڑتا ہے تو ایسےمیں نیتن یاہو بحران سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ اس حوالے سے اوسلو سمجھوتے کےبعد 25 سال کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ اسرائیل  اگر ایک بحران کوختم کرتا ہے تو دوسری طرف وہ کشیدگی کوبھی بڑھاوا دیتا ہے۔
اگر نیتن یاہو غیرسرکاری طورپرقائم کی گئی یہودی کالونیوں کو قانونی کالونیوں میں ضم کرتا ہے۔ دیوار فاصل مکمل کرتا ہے اور اردن کی سرحد پر اپنی سیکورٹی بڑھا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ غرب اردن پر اپنی فوجی گرفت مضبوط کرتا ہے تو اسرائیل کو اس باب میں ایک پریشانی ہوسکتی ہے۔ وہ یہ کہ اسے غرب اردن میں فلسطین اتھارٹی کی عدم موجودگی یا ناکامی کی صورت میں ایک طرف تو فلسطینیوں اور یہودیوں کو باہم دست وگریباں ہونے سے روکنا ایک چیلنج ہوگا اور دوسری طرف فلسطینیوں کی معاشی ذمے داریاں بھی صہیونی ریاست کے کندھے پرپڑیں گی۔
ایک تیسرا آپشن بھی ہے اور وہ مذاکرات کا آپشن ہے۔ اگر اسرائیل فلسطینیوں کےساتھ مذاکرات کی راہ اختیارکرتا ہے تو اسے فلسطینیوں کے چار بڑے مطالبات سرحدوں کا تعین، سیکورٹی، القدس اورپناہ گزین اور یہودی کالونیوں کو ختم کرنے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسرائیل کے سامنےایک اور آپشن بھی ہے اور وہ تین مراحل پرمبنی نیا روڈ میپ ہے۔ اس نئے اور آخری آپشن کو عملی شکل دینےکے لیے امریکا، یورپی یونین، گروپ چار، مصر، اردن، سعودی عرب، امارات، فلسطینی قیادت اور سمندر پار فلسطینیوں کی حمایت ضروری ہے۔ اس کاپہلا مرحلہ غرب اردن کے جن علاقوں میں ‌یہودی کالونیاں قائم کی گئی ہیں ان سمیت فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جائے۔ عارضی بنیادوں پر فلسطینی مملکت کی سرحدوں کا تعین کیا جائے، دیر پا حل کی بنیاد پر مذاکرات بحال کیےجائیں۔ دوسرے مرحلے میں علاقائی اورعالمی قوتوں ضمانت کے تحت معاہدہ کیا جائے اور تیسرے اور آخری مرحلےمیں عرب ممالک اور عالمی برادری کی معاونت سے معاہدے کے عملی نفاذ پرکام شروع کیا جائے۔

Comments