
سلطنت
غزنویہ
976ء
سے 1186ء
تک قائم ایک حکومت تھی جس کا دار الحکومت
افغانستان
کا شہر غزنی
تھا۔ اس کا سب سے مشہور حکمران محمود
غزنوی تھا جس نے ہندوستان
پر 17
حملے
کیے اور سومنات پر حملہ کرکے بطور بت شکن
خود کو تاریخ میں امر کر دیا۔
قیام
جب
سامانی
حکومت کمزور ہو گئی اور اس کے صوبہ دار
خود مختار ہو گئے تو ان میں ایک صوبہ دار
سبکتگین
(366ھ
تا 387ھ)
نے
افغانستان
کے دار الحکومت کابل
کے جنوب میں واقع شہر غزنی
میں 366ھ
میں ایک آزاد حکومت قائم کی جو تاریخ میں
دولت
غزنویہ
اور آل
سبکتگین
کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بعد میں سبکتگین
کا خراسان پر بھی قبضہ ہو گیا۔ اسی سبکتگین
کے زمانے میں مسلمان پہلی مرتبہ درہ
خیبر کے راستے پاکستان
میں داخل ہوئے ۔
اس
زمانے میں لاہور
میں ایک ہندو راجا جے
پال حکومت کرتا تھا اس کی حکومت پشاور
سے آگے کابل
تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کی سرحدیں سبکتگین
کی حکومت سے ملی ہوئی تھیں۔ راجا جے پال
نے جب دیکھا کہ سبکتگین کی حکومت طاقتور
بن رہی ہے تو اس نے ایک بڑی فوج لے کر غزنی
پر حملہ کر دیا لیکن لڑائی میں سبکتگین
نے اس کو شکست دے دی اور جے پال کو گرفتار
کر لیا گیا۔ جے پال نے سبکتگین کی اطاعت
قبول کرکے اپنی جان بچائی اور سالانہ خراج
دینے کا وعدہ کیا۔ اب سبکتگین نے جے پال
کو رہا کر دیا اور وہ لاہور واپس آ گیا
لیکن اس نے وعدے کے مطابق خراج نہیں بھیجا
جس کی وجہ سے سبکتگین نے حملہ کر دیا اور
وادی پشاور پر قبضہ کر لیا۔
سبکتگین کا 20 سال کی حکومت کے بعد انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا محمود غزنوی تخت پر بیٹھا۔ محمود خاندان سبکتگین کا سب سے بڑا بادشاہ ہوا ہے۔ اسلامی تاریخ کے مشہور حکمرانوں میں سے ایک محمود ہندوستان پر 17 حملوں کے باعث شہرت کی بلندیوں پر پہنچا۔
محمود
بچپن سے ہی بڑا نڈر اور بہادر تھا۔ وہ اپنے
باپ کے ساتھ کئی لڑائیوں میں حصہ لے چکا
تھا۔ بادشاہ ہونے کے بعد اس نے سلطنت کو
بڑی وسعت دی۔ وہ کامیاب سپہ سالار اور
فاتح بھی تھا۔ شمال میں اس نے خوارزم
اور بخارا
پر قبضہ کر لیا اور سمرقند
کے علاقے کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں نے اس
کی اطاعت قبول کرلی۔ اس نے پہلے بخارا اور
سمرقند کاشغر
کے ایلک
خانی حکمرانوں کے قبضے میں تھے اور
خوارزم میں ایک چھوٹی سے خود مختار حکومت
آل مامون کے نام سے قائم تھی۔ جنوب میں اس
نے رے،
اصفہان
اور ہمدان
فتح کرلئے جو بنی
بویہ کے قبضے میں تھے۔ مشرق میں اس نے
قریب قریب وہ تمام علاقہ اپنی سلطنت میں
شامل کر لیا جو اب پاکستان
کہلاتا ہے ۔
محمود
عدل و انصاف اور علم و ادب کی سرپرستی کے
باعث بھی مشہور ہے۔ اس کے دور کی مشہور
شخصیات میں فردوسی
اور البیرونی
کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
محمود غزنوی
محمود
غزنوی
|
|||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
|
|||||||
|
|||||||
معلومات
شخصیت
|
|||||||
پیدائش
|
|||||||
وفات
|
|||||||
شہریت
|
|||||||
اولاد
|
|||||||
مناصب
|
|||||||
دفتر
میں
998 – 30 اپریل 1030
|
|||||||
|
|||||||
عملی
زندگی
|
|||||||
پیشہ
|
|||||||
|
|||||||
|
|||||||
|

یمین
الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین
المعروف محمود
غزنوی
(پیدائش
بروز منگل 2
نومبر
971ء،
انتقال 30
اپریل
1030ء
)
997ء
سے اپنے انتقال تک سلطنت
غزنویہ کا حکمران تھا۔ وہ دسویں صدی
عیسوی میں غزنی کے مسلم بہادر اور عاشق
محمد
صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بادشاہ گزرا
ہے اس نے غزنی
شہر کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں
تبدیل کر دیا اور اس کی وسیع سلطنت میں
موجودہ مکمل افغانستان،
ایران
اور پاکستان
کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت
شامل تھا۔ وہ تاریخ اسلامیہ کا پہلا حکمران
تھا جس نے سلطان
کا لقب اختیار کیا۔
وہ
پہلا مسلم حکمران تھا جس نے ہندوستان
پر 17
حملے
کیے اور ہر حملے میں فتح حاصل کی۔ اس عظیم
مجاہد کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہندوستان
کے بت کدے لرز اٹھتے تھے ۔
محمود
غزنوی کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور
عرض کی کہ میں مدت سے محمد
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدار کا
طلبگار تھا قسمت سے گزشتہ رات مجھے آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دیدار کرنے کی
سعادت ملی محمد
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے میں نے عرض
کی یا
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ایک
ہزار درہم کا مقروض ہوں، اس کی ادائیگی
سے عاجز ہوں اور ڈرتا ہوں کہ اگر اسی حالت
میں مر گیا تو قرض کا بوجھ میری گردن پر
ہوگا (اس
وجہ سے بروز قیامت میں پھنس جاؤں)
رحمت
عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا :"محمود
سبکتگین کے پاس جاؤ وہ تمہارا قرض اتاردے
گا۔ میں نے عرض کی،وہ کیسے اعتماد کریں
گے؟ اگر ان کے لیے کوئی نشانی عنایت فرمادی
جا تو کرم بالا کرم ہو جائے گا۔ آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، جا کر اس
سے کہو، "اے
محمود!
تم
رات کے اول حصے میں تیس ہزار بار درود
پڑھتے ہو اور پھر بیدار ہو کر رات کے آخری
حصے میں مزید تیس ہزار بار درود پڑهتے ہو۔
اس نشانی کے بتانے سے وہ تمہارا قرض اتار
دے گا"۔
سلطان محمود نے جب شاہ خیر انام صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم کا رحمتوں بھرا پیغام سنا
تو رونے لگے اور تصدیق کرتے ہوئے اس کا
قرض اتار دیا اور ایک ہزار درہم مزید پیش
کیے۔ وزراء وغیرہ متعجب ہو کر عرض گزار
ہوئے!
عالیجاہ!
اس
شخص نے ایک ناممکن سی بات بتائ ہے اور آپ
نے کبھی اتنی تعداد میں درود شریف پڑھا
ہی نہیں اور نہ ہی کوئی آدمی رات بھر میں
ساٹھ ہزار بار درود شریف پڑھ سکتا ہے۔
سلطان محمود الودود نے فرمایا!
تم
سچ کہتے ہو لیکن میں نے علمائے کرام سے
سنا ہے کہ جو شخص دس ہزاری درود شریف ایک
بار پڑھ لے اس نے گویا دس ہزار بار درود
شریف پڑھے۔ میں تین بار اول شب میں اور
تین مرتبہ آخر شب میں دس ہزاری درود پاک
پڑھ لیتا ہوں۔ اس طرح سے میرا گمان تھا کہ
میں ہر رات ساٹھ ہزار بار درود شریف پڑھتا
ہوں۔ جب اس عاشق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم نے شاہ خير الانام صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کا رحمتوں بھرا پیغام پہنچایا،
مجھے اس دس ہزاری درود شریف کی تصدیق ہو
گئی اور گریہ کرنا (یعنی:رونا)
اس
خوشی سے تھا کہ علمائے کرام کا فرمان صحیح
ثابت ہوا کہ رسول غیب دان، رحمت للعالمين
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی گواہی
دی۔
سلطان
ابراہیم
دور
زوال کے غزنوی حکمرانوں میں سلطان
ابراہیم (451ھ
تا 492ھ)
کا
نام سب سے نمایاں ہے۔ اس نے اپنے 40
سالہ
دور حکومت میں سلطنت کو مستحکم کیا،
سلجوقیوں سے اچھے تعلقات قائم کیے اور
ہندوستان
میں مزید فتوحات حاصل کیں۔ اس کے عہد میں
ہندوئوں نے مسلمانوں کو پنجاب
سے بے دخل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں
کامیاب نہیں ہوئے۔ ابراہیم نے دہلی
تک تمام علاقہ غزنی کی سلطنت میں شامل کر
لیا اور اس کی افواج نے بنارس
تک کامیاب حملے کیے ۔
ابراہیم
بڑا دیندار اور رعایا پرور حکمران تھا۔
رات کو غزنی کی گلیوں میں گشت کرتا اور
محتاجوں اور بیوائوں کو تلاش کرکے ان کی
مدد کرتا۔ وہ اعلیٰ درجے کا خوشنویس تھا۔
ہر سال ایک قرآن
مجید لکھتا جسے ایک سال مکہ
معظمہ اور دوسرے سال مدینہ
منورہ بھیجتا۔ اس کو محلات سے زیادہ ایسی
عمارتیں بنانے کا شوق تھا جن سے عوام کو
فائدہ پہنچے چنانچہ اس کے عہد میں 400
سے
زائد مدارس، خانقاہیں، مسافر خانے اور
مساجد تعمیر کی گئیں۔ اس نے غزنی کے شاہی
محل میں ایک بہت بڑا دوا خانہ قائم کیا
جہاں سے عوام کو مفت ادویات ملتی تھیں۔
اس دوا خانے میں خصوصاً آنکھ کی بیماریوں
کی بڑی اچھی دوائیں دستیاب تھیں۔
خاتمہ
545ھ
بمطابق 1150ء
میں غزنی
پر غور
کے ایک حکمران علاؤ
الدین
نے قبضہ کرکے شہر کو آگ لگادی جس کی وجہ
سے دنیا کا یہ عظیم شہر جل کر خاکستر ہو
گیا۔ علائو الدین کے اس ظالمانہ کام کی
وجہ سے لوگ اس کو ”جہاں سوز“ یعنی دنیا
کا جلانے والا کہتے ہیں۔ اس کے بعد غزنوی
خاندان کے آخری دو حکمرانوں کا دارالسلطنت
لاہور
ہو گیا۔ 582ھ
میں غور کے ایک دوسرے حکمران شہاب
الدین غوری نے لاہور پر قبضہ کرکے آل
سبکتگین کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
اہمیت
غزنوی
حکمرانوں کا دور پاکستان کی تاریخ میں
خاص طور پر بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان
تقریباً 200
سال
تک غزنی کی سلطنت کا حصہ رہا اور اس زمانے
میں اسلامی تہذیب کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔
کوہ
سلیمان کے رہنے والے پٹھانوں نے اسی
زمانے میں اسلام قبول کیا اور لاہور
پہلی مرتبہ علم و ادب کا مرکز بنا۔
علم و ادب کی سرپرستی
غزنوی
حکمران علم و ادب کے بڑے مربی و سرپرست
تھے۔ خصوصا محمود غزنوی کے دور کے فردوسی
اور البیرونی
کے کارنامے دنیا آج بھی یاد کرتی ہے۔
فردوسی
کا شاہنامہ
فارسی شاعری کا ایک شاہکار سمجھاجاتا ہے
اور دنیا اسے آج تک دلچسپی سے پڑھتی ہے۔
البیرونی اپنے زمانے کا سب سے بڑا محقق
اور سائنس دان تھا۔ اس نے ریاضی،
علم
ہیئت، تاریخ
اور جغرافیہ
میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں جو اب تک پڑھی
جاتی ہیں۔
غزنویوں
کے دور میں لاہور پہلی مرتبہ علم و ادب کے
مرکز کے طور پر ابھرا۔ اس زمانے میں فارسی
کے کئی ادیب اور شاعر یا تو لاہور
میں پیدا ہوئے یا یہاں آکر آباد ہوئے۔
یہاں کے شاعروں میں مسعود
سعد سلمان اور عوفی
بہت مشہور ہیں۔ ان کا شمار فارسی کے صف
اول کے شعرا میں ہوتا ہے۔ یہ دونوں شاعر
سلطان ابراہیم اور اس کے جانشینوں کے
زمانے میں تھے ۔
لاہور
کے علما میں حضرت علی
بن عثمان ہجویری (400ھ
تا 465ھ)
بہت
مشہور ہیں۔ وہ ایک بہت بڑے ولی تھے جن کی
وجہ سے لاہور کے علاقے میں اسلام کی اشاعت
ہوئی اور بہت سے ہندو مسلمان ہوئے۔ حضرت
ہجویری آج کل داتا
گنج بخش کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے
40
سال
تک اسلامی دنیا کے بہت بڑے حصے کی سیر کی
اور آخر میں لاہور آکر رہنے لگے۔ ان کا
مزار لاہور میں موجود ہے ۔
حضرت
ہجویری ”کشف
المحجوب“ نامی ایک کتاب کے مصنف ہیں۔
یہ علم تصوف میں فارسی
زبان کی پہلی کتاب ہے اور تصوف کی سب سے
اچھی کتابوں میں سے ہے۔ یہ کتاب انہوں نے
لاہور میں لکھی تھی۔ اس کتاب کا اردو
ترجمہ بھی ہو گیا ہے ۔
عہد
غزنوی کی دو عظیم ہستیاں ابو
سعید ابوالخیر (357ھ
تا 440ھ)
اور
سنائی
(465ھ
تا 545ھ)
ہیں۔
ابوالخیر اپنے عہدے کے بڑے صوفی اور ولی
تھے۔ ان کی شہرت زیادہ تر رباعیوں کی وجہ
سے ہے کیونکہ وہ فارسی زبان کے پہلے بڑے
رباعی گو شاہر تھے۔ ان کی یہ رباعیاں آج
بھی مقبول ہیں اور خدا سے محبت اور اخلاقی
تعلیم ان کا خاص موضوع ہے۔
سنائی
غزنویوں کے آخری دور کے سب سے بڑے شاعر
ہیں اور فارسی میں صوفیانہ شاعری کے بانی
ہیں۔ ان کا کلام سوز و گداز اور اخلاقی
تعلیم سے بھرا ہوا ہے۔ ابو سعید ابوالخیر
کا تعلق خراسان
سے تھا اور سنائی کا شہر غزنی
سے ۔
عربی
زبان کا مشہور ادیب بدیع
الزماں ہمدانی (متوفی
1007ء
)
بھی
اسی زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ہرات کا
رہنے والا تھا۔ اس کی کتاب ”مقامات“ عربی
انشا پردازی کا اعلیٰ نمونہ سمجھی جاتی
ہے ۔
I need this Book سلطنت غزنویہ اور آل سبکتگین
ReplyDelete