ایک
نئے سروے کے مطابق سن 2017
اور
2018 کے
مالی سال کے دوران بھارت میں بے روزگاری
کی شرح میں 6.1
فیصد
اضافہ ہوا ہے۔ شہری علاقوں میں یہ شرح 7.3
جبکہ
دیہی علاقوں میں 5.3
فیصد
نوٹ کی گئی ہے۔
خبر
رساں ادارے روئٹرز نے ایک نئے سروے کے
نتائج کے حوالے سے بتایا ہے کہ بھارت میں
گزشتہ 45
برسوں
بعد سن 2017
اور
2018 کے
دوران بے روزگاری کی شرح میں ریکارڈ اضافہ
ہوا ہے۔ سیاستدان اس صورتحال کی وجہ حکومتی
پالیسیوں کو قرار دے رہے ہیں۔
بھارت
کے روزنامہ بزنس اسٹینڈرڈ میں یہ سروے
ایک ایسے وقت میں شائع کیا گیا ہے، جب
بھارت میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔
رواں برس کے الیکشن میں حکمران بھارتیہ
جنتا پارٹی کو اپوزیشن کی طرف سے سخت
مقابلے کے پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ اس
صورتحال میں بھارت میں بے روزگاری کی شرح
میں یہ اضافہ وزیر اعظم نریندر مودی کے
لیے اضافی مشکلات کا بن سکتا ہے۔
اس
سروے کی اشاعت میں تاخیر پر حکومتی معاونت
سے قائم ’قومی شماریاتی کمیشن‘ کے عبوری
چیئرمین پی سی منموہن نے استعفیٰ بھی دے
دیا ہے۔ یہ سروے دراصل گزشتہ برس دسمبر
میں شائع ہونا تھا تاہم منموہن کے مطابق
حکومتی سطح پر اس کو جاری کرنے کی راہ میں
رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ یہ معاملہ بھی ایک
سیاسی تنازعے کی شکل اختیار کر چکا ہے
اپوزیشن
پارٹی کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے
کہا ہے کہ مودی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک
سال میں روزگار کے دو ملین مواقع پیدا
کریں گے لیکن حقیقت میں سن 2017
اور
2018 میں
بے روزگاری کی شرح نے گزشتہ پینتالیس
برسوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ انہوں نے
مزید کہا کہ اس وقت بھارت میں بے روزگار
نوجوانوں کی تعداد 65
ملین
ہو چکی ہے۔ ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا کہ یہ
معاملہ ایک ’قومی سانحہ‘ ثابت ہوا ہے۔
یاد
رہے کہ بھارت میں جولائی سن 2017
میں
قومی سیلز ٹیکس کے نفاذ کے بعد ملک میں
لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہو گئی
تھی۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے اس نئی
رپورٹ پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
قومی
شماریاتی ادارے کے سربراہ پراوین سری
واستو نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ ان
کے ادارے نے یہ رپورٹ جاری نہیں کی ہے، اس
لیے وہ اس پر کوئی ردعمل نہیں دے سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ رپورٹ حتمی نہیں
ہے اور اس پر نظر ثانی کے بعد اسے جاری کیا
جائے گا۔
Comments
Post a Comment