کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورانٹو سے جمعرات اکتیس جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنجسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اوٹاوا حکومت نے کیوبا میں اپنے سفارتی عملے کی تعداد نصف کر دینے کا فیصلہ وہاں تعینات عملے کے ایک اور رکن میں اس پراسرار بیماری کی علامات کی تشخیص کے بعد کیا ہے۔
اشتراکی
نظام حکومت والی ریاست کیوبا میں غیر ملکی
سفارت کاروں میں اس مرض کی علامات پہلی
مرتبہ 2017ء
کے موسم بہار میں ظاہر ہونا شروع ہوئی
تھیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اب تک یہ مرض
وہاں صرف امریکا اور کینیڈا کے سفارت
کاروں ہی میں دیکھنے میں آیا ہے۔
صرف
امریکا اور کینیڈا کے سفارت کار متاثر
یہ
مرض، جس کی وجوہات کا بیمار سفارت کاروں
کے تمام تر طبی معائنوں کے باوجود ابھی
تک تعین نہیں کیا جا سکا، اب تک ہوانا میں
کینیڈا اور امریکا کے درجنوں سفارت کاروں
کو متاثر کر چکا ہے۔ اس بیماری کے شکار
افراد کو شروع میں مسلسل سر درد، چکر آنے
اور متلی جیسی کیفیت کی شکایت رہتی ہے۔
اوٹاوا
حکومت نے ہوانا میں اپنے سفارت کاروں کی
تعداد میں نصف کی کمی کا فیصلہ اس بیماری
کے ایک نئے کیس کے سامنے آنے کے بعد کیا
ہے۔ کیوبا میں تعینات کینیڈین سفارت کاروں
کی موجودہ تعداد 16
ہے،
جو اس فیصلے کے بعد اب آٹھ کر دی جائے گی۔
در
درجن امریکی سفارت کار بھی بیمار
امریکا
نے، جس کے ہوانا میں سفارتی عملے کی تعداد
ماضی میں 50
سے
زائد تھی، اب یہ تعداد کم کر کے صرف 18
کر
رکھی ہے۔ اس کا سبب کیوبا میں تقریباﹰ دو
سال قبل امریکا کے دو درجن سے زائد سفارت
کاروں کا اسی مرض کا شکار ہو جانا بنا تھا۔
دریں
اثناء کینیڈا میں کیوبا کی خاتون سفیر
جوزفینا ویدال نے کہا ہے کہ اوٹاوا حکومت
کا یہ فیصلہ ’ناقابل فہم‘ ہے۔ انہوں نے
کہا کہ ایسے کسی بھی سیاسی سفارتی فیصلے
سے دوطرفہ تعلقات کو نقصان بھی پہنچے گا
اور اس پراسرار مرض کے اسباب کی تشخیص میں
کوئی مدد بھی نہیں ملے گی۔
’یہ
کوئی سازش نہیں‘، ہوانا حکومت
روئٹرز
نے لکھا ہے کہ اس ’ناقابل فہم مرض‘ سے
متعلق طبی چھان بین کے لیے کیوبا کی حکومت
اب تک کینیڈین حکومت کے ساتھ مکمل تعاون
کرتی آئی ہے۔ یہ امر تاہم ابھی تک طے نہیں
ہو سکا کہ ہوانا میں تعینات سینکڑوں غیر
ملکی سفارت کاروں میں سے اس مرض کا سامنا
صرف امریکا اور کینیڈا کے سفارتی عملے کو
ہی کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔
اس
بارے میں دبے لفظوں میں واشنگٹن اور اوٹاوا
میں حکام کی طرف سے یہ اشارے بھی دیے جاتے
ہیں کہ یہ شاید کوئی سازش ہے کہ ہوانا میں
امریکا اور کینیڈا کے سفارتی نمائندے ہی
اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دوسری
طرف کیوبا کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بھی
اس پراسرار مرض کے کیسز پر اتنی ہی پریشان
ہے، جتنی کہ امریکا اور کینیڈا کی حکومتیں۔
ہوانا حکومت اس سلسلے میں اپنے کسی بھی
طرح کی سازش میں ملوث ہونے سے متعلق
بالواسطہ الزامات یا شبہات کی بھرپور
تردید کرتی ہے۔
ہوانا
میں کینیڈا کا سفارت خانہ امریکی سفارت
خانے سے تقریباﹰ پانچ کلومیٹر کے فاصلے
پر واقع ہے۔ ہوانا میں ملکی وزارت اقتصادیات
کے مطابق کینیڈا کیوبا کے ساتھ سب سے زیادہ
تجارت کرنے والے دس بڑے ممالک میں سے ایک
ہے۔
Comments
Post a Comment