پاکستان
کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی
بہن علیمہ خان کے ٹیکس کا تمام ریکارڈ طلب
کل یعنی سنیچر کو کرلیا ہے۔
عدالت
کا کہنا ہے کہ کوئی کتنا ہی بااثر کیوں نہ
ہو، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔
فیڈرل
بورڈ آف ریونیو کے ممبر نے علیمہ خان کی
ٹیکس کی معلومات عدالت میں پیش کرنے سے
معذوری ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ کھلی
عدالت میں ٹیکس کا ریکارڈ نہیں دیا جاسکتا
کیونکہ یہ تفصیلات صیغہ راز میں رکھنی
ہیں۔
جمعے
کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی
میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بیرون
ممالک پاکستانیوں کی جائیدادوں سے متعلق
ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے علیمہ
خان کی بیرون ملک جائیداد سے متعلق بھی
از خود نوٹس لیا تھا۔
اسلام
آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک
کے مطابق عدالت نے ایف بی آر کے حکام کو
کہا ہے کہ وہ علیمہ خان کے بارے میں سر
بمہر رپورٹ جمع کروا دیں جس کو بینچ میں
موجود جج صاحبان خود ہی دیکھ لیں گے۔
نامہ
نگار شہزاد ملک کے مطابق وزیراعظم عمران
خان کی بہن علیمہ خان کی آف شور کمپنی اور
دبئی میں جائیداد کا سراغ وفاقی تحقیقاتی
ادارے یعنی ایف آئی اے نے لگایا۔ عدالت
عظمی کو جو اس بارے میں رپورٹ دی گئی اس
میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کی بہن علیمہ
خان دبئی کے انتہائی پوش علاقے میں واقع
برج خلیفہ کے قریب ایک انتہائی قیمتی فلیٹ
کی مالک ہیں۔
اس
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایف آئی
اے کے حکام نے علیمہ خان سے اس بارے میں
پوچھا بھی تھا اور اُنھوں نے اس فلیٹ کو
خریدنے سے متعلق آمدن کے ذرائع بھی بتائے
ہیں۔
ایف
بی آر کے اہلکار کا کہنا ہے کہ علیمہ خان
کی دبئی میں جائیداد کے منظر عام پر آنے
کے بعد علیمہ خان کی طرف سے بتایا گیا کہ
اُنھوں نے اپنے انکم ٹیکس کے گوشواروں
میں اس جائیداد کا ذکر اس لیے نہیں کیا
تھا کیونکہ اُنھیں آڈیٹر نے بتایا تھا کہ
جائیداد ظاہر کرنے سے اُنھیں جرمانہ بھی
ہوسکتا ہے۔
حکام
کے مطابق علیمہ خان نے اس جائیداد سے متعلق
25فیصد
ٹیکس اور25
فیصد
جرمانہ بھی ادا کر دیا ہے تاہم وزیراعظم
کی ہمشیرہ کی طرف سے جمع کروائی گئی اس
رقوم کی تفصیلات کو سامنے نہیں لایا گیا۔
حکمراں
جماعت پاکستان تحریک انصاف کے مطابق علیمہ
خان ان دنوں غیر ملکی دورے پر ہیں جہاں پر
وہ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی
کے لیے فنڈز اکھٹے کرنے کی مہم میں شریک
ہیں۔
سابق
وزیر اعظم نواز شریف نے بھی علیمہ خان کی
جائیداد سے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کیا
تھا جس پر حکمراں جماعت کی طرف سے سابق
وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
چیف
جسٹس نے اس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران
ایف بی آر کے حکام سے استفسار کیا کہ ایسے
20 افراد
جن کی بیرون جائیدادیں ہیں ان سے متعلق
تحقیقات کا کہا گیا تھا اس کا کیا بنا، جس
پر ایف بی آر کے ممبر کا کہنا تھا کہ جن 20
افراد
کی نشاندہی کی تھی ان کے خلاف تحقیقات
جاری ہے۔
اُنھوں
نے کہا کہ ان میں سے چھ افراد کی طرف سے
ایف بی آر اور ایف آئی اے کو دیے گئے بیان
حلفی پر کلیئر کردیا گیا ہے جبکہ 14
افراد
کی طرف سے جمع کروائے گئے بیان حلفی میں
مطابقت نہ ہونے پر تحقیقات کی جارہی ہیں۔
چیف
جسٹس نے تحقیقات میں پیش رفت پر برہمی کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس رفتار سے تحقیقات
آگے بڑھ رہی ہیں اس سے تو کافی وقت لگ جائے
گا۔ ایف بی آر کے حکام کا کہنا تھا کہ اگلے
ماہ تک تحقیقات مکمل کرلی جائیں گی۔
اس
از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے
کے حکام نے پاکستانیوں کی بیرون مملاک
جائیدادوں سے متعلق ایک نئی رپورٹ پیش کی
ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صرف دبئی میں مزید
220
جائیدادوں
کا سراغ لگایا گیا، اس طرح اب مجموعی طور
پر 1115
پاکستانیوں
کی 2029
جائیدادیں
دبئی میں ہیں۔
اس
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 1115
پاکستانیوں
میں سے 757
پاکستانیوں
نے بیان حلفی جمع کراوائے ہیں۔
اس
رپورٹ کے مطابق بیان حلفی جمع کرانے والوں
میں 223
پنجاب
،444
سندھ
، 74
اسلام
آباد جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا سے 16
افراد
شامل ہیں۔
ایف
ائی اے کی رپورٹ کے مطابق 351
افراد
نے ابھی تک بیان حلفی جمع نہیں کروائے جس
میں سے 281
افراد
کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔
بی بی سی اردو
Comments
Post a Comment