
جنگ
پلاسی میں بنگال کے نوا ب سراج الدولہ کی
شکست کے بعد انگریز تاجر کمپنی بولائی
ھتنی کی مانند پورے ہندوستان میں دوڑنے
لگی تھی -
١٧٩٩
میں میسور کے سلطان ٹیپو کی شہادت سے
انگریز کے راستے کا آخری پتھر بھی ہٹ چکا
تھا -
نواب
سراج الدولہ کی شکست میں بھی مسلمان غدار
ننگ ملت ننگ دین میر جعفر نے اپنا کردار
ادا کیا ، ٹیپو سلطان کے آخری معرکے سرنگا
پٹم میں بھی مسلمان غدار میر صادق نے
انگریز سے حق وفاداری نبھاتے ہوۓ سلطان
کو مروایا -
سلطان
کی شہادت کے ساتھ ہی ہندوستان میں انگریز
کے خلاف مزاحمت کا باب بند ہوگیا -
بلآخر
١٨٣١ میں سید احمد شہید نے سکھوں کے خلاف
علم بلند کیا مگر ان کا ہدف درحقیقت بدیسی
انگریز ہی تھے -
اس
کے علاوہ بھی مقامی سطحوں پر انگریز سے
بغاوت اور پنجہ آزمائی کا سلسلہ کسی نہ
کسی انداز میں جاری رہا -
بنگال
میں پہاڑی قبائل کی جدوجہد فقیروں میں
مجنوں شاہ کی جدوجہد ، اور انگریزوں سے
مزاحمت جاری رہی ، شہید تیتو میر کی تحریک
-
(یہ
تحریک درحقیقت حاجی شریعت اللہ کی فرائضی
تحریک سے متاثر تھی -
جسے
حاجی شریعت اللہ نے ١٧ ٨١ میں شروع کیا
تھا -
یہ
کسانوں اور مزدوروں کی تحریک تھی جو ١٨٦٠
کے آخر تک جاری رہی -
) 1857 عیسوی
میں پورے ہندوستان میں انگریز وں کے خلاف
عوامی بغاوت پھوٹ پڑی جس میں ہندو ، مسلم
، سکھ ، پارسی سب ایک مشترکہ دشمن کے مقابلے
پر اپنی اپنی حکمت عملی کے ساتھ شامل
جدوجہد ہو گئے -
برصغیر
کی تاریخ میں اتنی عظیم شورش یا جدوجہد
تاریخ کا عظیم باب بن گیا -
اس
میں عزیمت کی داستانیں بھی ہیں ، قربانیوں
کا ناقابل یقین سلسلہ بھی ، ظلم و جبر کی
انتہا اور مظلوموں کی اہ و فریاد بھی -
1857 ہندوستان
کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی شکل اختیار
کر گیا -
اس
مقام کو تاریخ کا ایک ٹرننگ پوا ئنٹ کہیں
یا ایک حد فاصل !
،
جہاں سے ایک تہذیب کا اختتام اور ایک تہذیب
کی ابتداء ہو رہی ہو -
1831 میں
سید احمد شہید کی عظیم تحریک مجاہدین نے
آزادی کی جس شمع کو جلایا تھا وہ 1836
تک
پوری آب و تاب کے ساتھ روشن رہی -
سید
احمد اور شاہ اسماعیل شہید کی شہادت کے
بعد بھی علمائے صادق پور نے اس جہاد کو
کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھا -
یہ
ایک حقیقت ہے کہ تحریک مجاہدین بوجوہ ایک
عوامی تحریک تو نہ بن سکی مگر اس تحریک نے
انگریز اور مرہٹوں سکھوں کے عزائم کو پوری
طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا -
سید
احمد شہید نے انگریز کے بارے میں جن جن
خدشات کا اشارہ دیا تھا ، تجارتی ، بدیہی
انگریز حرف بہ حرف اس پر پورے اتر رہے تھے-
1857 میں
صدیوں سے قائم مغل سلطنت جس نے رنگ و نسل
کے سارے امتیازات ختم کرکے ہندوستان کی
وحدت کو برقرار رکھا ہوا تھا -
اس
عظیم تہذیب کا خاتمہ ہوا ، اور ایک نئی
تہذیب نے ہندوستان میں اپنے قدم جمانے
شروع کردئیے -
ہندوستان
جوصدیوں سے علم و فن کا گہوارہ تھا ، تہذیب
و تمدن کا مرکز تھا برباد ہو رہا تھا -
دلی
اجڑ رہی تھی ، لکھنؤ تاراج ہوچکا تھا ،
بنگال کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی -
حیدر
آباد کی ریاست تائب ہوکر مطیع و فرمانبردار
ہو چکی تھی -
کوئی
اس کو غدر کہہ کر انگریز سرکار کی ہاں میں
ہاں ملا کر "سر
"
بن
رہا تھا تو کوئی جاگیریں بٹورنے کے چکر
میں اپنے ہی عزیزوں کے گلے کٹوا رہا تھا
-
ایک
دردناک ،خوں نہائی اس داستان اور حقیقت
کوانگریز نے غدر (
فساد
)
کہا
، خوف زدوں نے "
رستخیز
بے جا"
کہہ
کر حق گوئی نبھائی ، کچھ سر پھرے ایسے بھی
نکلے جنھوں نے ببانگ دھل اس جدوجہد کو
آزادی کی جنگ کہا ، یہ معدودے سر پھرے
گرفتار ہوئے ، انگریز سرکار نے سر عام
سولی پر لٹکایا -
مولوی
اور جہادی توپوں کے منہ (
د
ھانے )
پر
باندھے گئے جن کو گولوں سے اڑا دیا گیا -
انگریز
سے آزادی کی یہ تحریک جنگ آزادی کہلاتی
ہے -
انگریز
بےشک ہندوستان کے فاتح تھے ، مگر یہ کیسی
فتح تھی جو لشکر کشی اور اعلانیہ جنگ کے
بغیر ہوئی ؟ انگریز ١٦٠٠ عیسوی میں تجارت
کی غرض سے ہندوستان میں ایک کرائے کی کوٹھی
بطور گودام حاصل کرتا ہے ، پھر مزید
جائیدادیں بناتا ہے ، یہاں تک کہ ١٨٠٠
عیسوی تک پورے کے پورے ہندوستان پر قبضہ
کرلیتا ہے -
اگست
١٨٥٨ میں سرکار برطانیہ دہلی پر قبضہ
جمانے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی تحلیل کرکے
اپنی حکومت کا ا علان کردیتی ہے -
دنیا
میں اس قسم کے گھٹیا اور غاصبانہ قبضے کی
یہ اپنی نوعیت کی پہلی مثال تھی -
یہی
نہیں اس قبضے کے بعد پورے ہندوستان میں "
لڑاؤ
اور حکومت کرو "
کی
پالیسی کو بنیاد بناکر صدیوں سے ایک ساتھ
رہنے والوں کو آپس میں لڑوانے کی تراکیب
کے ذریعے ہندوستان میں فساد پھیلانے کا
کام شروع کردیا -
آج
لو گ "
گوانتا
نامو بے "
سے
بخوبی واقف ہیں -
انگریز
نے ہندوستان کے مجاہدین کے لئے "
کالا
پانی "
نامی
جزیرہ ایجاد کیا تھا -
اجتماعی
پھانسیاں انگریز ہی کی ایجاد کردہ سزا
تھی جس کے ذریعے ایک ہی بانس پر باندھ کر
کئی کئی مجرموں کو بھانسی دے دی جاتی تھی
-
توپ
کے آگے با ندہ کر بم سے اڑا دینا ، مہلک
مجاہدین کے لئے مخصوص تھا -
انگریز
اپنی مکارا نہ اور تجارتی سوچ کے ساتھ
ہندوستان آیا تھا -
ہندوستان
کو اپنے پنجے میں دبوچنے کے ساتھ ہی ظلم
و جبر کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے ہندوستان
بھر میں دہشت و خوف کی فضا قائم کردی -
جلیانوالہ
باغ مین چند ہزار افراد انگریزوں کے خلاف
پرامن احتجاج کے لیے جمع ہورہے تھے اور
انہیں معمولی لاٹھی چارج کے ذریعے تتّربتّر
کیا جاسکتا تھا لیکن جنرل ڈائر نے پرامن
اور نہتے لوگوں پر براہ راست فائرنگ کا
حکم دیا اور چند منٹ میں تین سو سے زائد
لوگ ہلاک ہوگئے۔ اس کے مقابلے پر مسلمانوں
نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی لیکن
ایک ہزار سال کی تاریخ میں جلیانوالہ باغ
جیسا ایک بھی واقعہ نہیں ہے۔ جبکہ انگریزوں
نے ١٦٠٠ سے لیکر ١٨٠٠ عیسوی تک کے دوسو
سال میں طاقت کے بہیمانہ استعمال کو
’’معمول‘‘ بنائے رکھا، لاکھوں افراد
کو بنگال میں قحط سالی کے دوران بھوکا
ماردیا -
حالانکہ
سرکاری اور ایسٹ انڈیا کے گوداموں میں
سالوں کے لئے کافی غلہ گندم ، چاول وافر
مقدار میں موجود تھا -
مصنوئی
قحط سالی ، اور کساد بازاری انگریز تجارتی
فاتح کی اعلی ایجادات میں سے ایک ایجاد
کہی جاسکتی ہے -
بنگال
کے لاکھوں جولاہوں اور دستکاروں کے ہاتھ
کاٹ کر زندگی بھر کے لئے اپاہج کرنا انتہا
ئی معمولی درجے کا کام قرار پایا تھا جس
کی آجتک کوئی معافی تک نہیں مانگی گئی -
یہاں
تک کہ جنرل ہڈسن کا نام "
خون
کا پیاسا "
پڑ
گیا تھا -
نیل
کو اس بات پر فخر تھا کہ اس نے سینکڑوں
ہندوستانیوں کو بیگناہ مقدمات میں پھانسی
چرھوایا تھا -
الہ
باد کا کوئی درخت ایسا نہیں بچا تھا جہاں
قیدیوں کو پھانسی پر نہ لٹکایا گیا ہو -
مسلمان
روسا کو سور کی کھال میں لپیٹ دینا معمول
کی معمولی سزا تھی ، تلوار کی دھار کے نیچے
ہندو قیدی کو گائے کا گوشت کھانے پر مجبور
کرنا گویا انگریز سپاہیوں کا کھیل تھا -
زخمی
سپاہیوں کو وقت کی کمی کے باعث زندہ جلا
دیا جاتا -
یہی
وہ عوامل تھے جن کی وجہہ سے ہندوستان کےبے
چینی اور بغاوت کا جذبہ اندر ہی اندر پروان
چڑھتا جارہا تھا -
سر
سید احمد خان جو انگریزوں کے بہت بڑے حامی
کے طور پر جانے جاتے ہیں "
اسباب
بغاوت ہند "
میں
یہ لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ "
بہت
سی باتیں ایک مدت دراز سے لوگوں کے دل میں
جمع ہوتی جاتی تھیں ، اور بہت بڑا میگزین
جمع ہوگیا تھا -صرف
اس کے شتابے مینا کو آگ لگانی باقی تھی کہ
سال گزشتہ میں فوج کی بغاوت نے اس میں آگ
لگا دی "
سر
سید احمد خان کا اشارہ میرٹھ چھا ونی میں
فوجی بغاوت سے تھا -
ویسے
تو جنگ آزادی ہند کا آغاز 1857ء
میں بنگال میں ڈمڈم اور بارک پور کے مقامات
پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں
کے استعمال سے انکار کر دیا جن میں ان کے
خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی لگی
ہوئی تھی۔ انگریزی حکومت نے ان سپاہیوں
کو غیر مسلح کرکے فوجی ملازمت سے برخاست
کر دیا۔ اسی نوعیت کا واقعہ لکھنو میں بھی
پیش آیا ۔ یہ برخواست شدہ سپاہی ملک میں
پھیل گئے۔ اور فوجوں کو انگریزوں کے خلاف
ابھارنے لگے۔ 9
مئی
1857ء
کو میرٹھ میں ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو دس
سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ جس طریقے
سے اور عجلت میں یہ یہ حکم سنایا گیا وہ
بھ ی تہذیب اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف
تھا ۔ دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو
ہلاک کرکے سزا یافتہ قیدیوں کو آزاد کرا
لیا اور میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے
۔ میرٹھ کے سپاہیوں کی دہلی میں آمد اور
نعرے بازی سے سے دہلی کی بیرکوں میں بھی
صورتحال بگڑ گئی -
میرٹھ
چھا ؤ نی کی بغاوت :
باغی
فوجیوں نے اسلحہ کا گودام لوٹا اور میرٹھ
کے قریب ترین دلی شہر کا رخ کیا -
زور
دار نعروں کے ساتھ کہ "
چلو
دلی -
چلو
دلی "
،
دلی ابھی تک مغل سلطنت کا پایہ تخت تھا -
نام
کا ہی سہی ، دلی پر حکمرانی کا مطلب تھا
کہ پورے ہندوستان پر حکمرانی -
جبکہ
حقیقت حال یہ تھی کہ مغل حکومت دلی قلعے
کے باہر بالکل بےبس و مجبور تھی -
لیکن
ایک علامت کے طور پر بہرحال زندہ تھی -
تاجدار
مغل کا ہی سکہ رائج تھا -
یہ
باغی فوجی دلی کے لال قلعہ پہنچ کر دم لیتے
ہیں-
تاریخ
لکھتے ہوۓ مؤرخ کچھ جگہوں پر اگر رنگینی
زیب داستان کے لئے کچھ نہ لکھے تو پڑھے گا
کون -
گرچہ
اس خونی داستان کو کسی اور رنگینی کی کوئی
ضرورت نہیں پھر بھی "
جنگ
آزادی کے دوران جب جنگ آزادی کے باغیوں
نے بادشاہ سے گزارش کی کہ وہ بادشاہ کی
حیثیت سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں تو
انہون نے مجبوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ
مجھے بادشاہ کون کہتا ہے ۔میں تو ایک فقیر
ہوں کسی طرح اپنے کنبے کے ساتھ جی رہا ہوں
،میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں خزانہ
خالی ہے نہ طاقت ہے نہ دبدبہ اور یہ کہہ
کر ان کی آنکھیں غمناک و اشکبار ہوگئیں ۔
بہادر شاہ ظفر کی نیک سیرت بیگم زینت محل
نے بادشاہ کے حضور درخوا ست پیش کی ،
’’بادشاہ سلامت آج پورے ملک کی نظر دہلی
پر لگی ہوئی ہے مغلیہ خاندان کا خون
ہندوستان کو غلام نہیں ہونے دیگا ،جنگ
آزادی میں ہم اپنی جانیں قربان کر دینگے
اور اللہ تعالی کے قدم نشین ہوجائیں گے
لیکن ظالم اور فرنگیوں کے سامنے سر نہیں
جھکائیں گے ۔‘‘ظفر نے زینت محل کی ہمت
اور جذبہ پر انہیں داد تحسین پیش کی ،زینت
محل پھر گویا ہوئیں ۔میں ہندوستان کی بیٹی
ہوں اور اس کی جنگ آزادی کے لئے کچھ کرسکی
تو مجھے فخر ہوگا‘‘ زینت محل کے ان الفاظ
نے بادشاہ کی بوڑھی رگوں میں نیا خون
دوڑایا اور انہوں نے فرنگیوں کو اس ملک
سے نکالنے کے لئے جنگ آزادی میں کود پڑنے
کا فیصلہ کیا۔ ابوالمظفر سراج الدین محمد
بھادر شاہ غازی حقیقی معنوں دوبارہ سرکار
معظم قرار پائے -
جنوری1857
میں
لال قلعہ کے دیوان خاص میں انقلاب کے شعلہ
بھڑکنے لگے،شاہی محل کے دروازہ پر فوجی
تعینات کر دئے گئے ۔ایک بار پھر خلق خدا
کی ملک بادشاہ کا حکم جہاں پناہ کا ۔شاہی
نعرے لال قلعہ کی چہار دیواریوں میں گونجنے
لگے ۔عیش و آرام میں ڈوبے ہوئے شہزادوں
میں بھی انقلاب کا جذبہ پیدا ہوگیا اور
دہلی شہر آہستہ آہستہ بغاوت کی آگ میں
جلنے لگا ۔بادشاہ کے نام سے احکامات جاری
ہونے لگے اور ہند کا یہ بوڑھاسپاہی نئے
جوش و خروش کے ساتھ میدان جنگ کی طرف بڑھا۔
پورا شہر انگریزوں کی لاشوں سے بھرا پڑا
تھابادشاہ نے ہندوستانی مجاہدین کی قیادت
کرتے ہوئے کہا کہ ’’اے ہندوستان کے
سپاہیوں اگر ہم ارادہ کرلیں تو آسانی سے
دشمن کا خاتمہ کر کے اپنے وطن کو بچا سکتے
ہیں ’’ہندوں اور مسلمانوں اٹھو اور جنگ
آزادی میں کود پڑو‘ دیکھتے ہی دیکھتے
سلطان معظم کا یہ ا علان ہندوستان میں
پھیل گیا -
باغی
فوجی لال قلعہ پہنچنا شروع ہوگیے جہاں
پہلے سے ہی باغی فوجی موجود تھے -
کیونکہ
خزانہ خالی تھا -
گولہ
بارود نہ ہونے کے برابر تھا -
سپاہ
کو تنخوا ہ دینے کو ایک دھیلہ نہ تھا -
چناچہ
انگریز کی املاک کو لوٹنے کا سلسلہ شروع
ہوا -
باغی
جو اسلحہ لوٹ کر لائے تھے وہی انگریز فوج
سے مقابلے کے لئے استمعال ہورہا تھا -
یہاں
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ میرٹھ کے باغی
سپاہیوں کی اکثریت ہندو اور برہمن فوجیوں
پر مشتمل تھی ، لیکن دلی میں بہادر شاہ
ظفر کی سربراہی میں آزادی کی جنگ میں
مسلمان سپاہ کے ساتھ شامل ہونا اس بات کی
غمازی کرتا ہے کہ ایک ہزار سالہ مسلمان
حکمرانی ہندو مسلم اور دیگر مذاہب سب کے
لئے قابل قبول تھی -
ہندوستان
کا مشترکہ دشمن "
گورا
"
تھا
-
چناچہ
مغل سلطنت کی آخری نشانی ہی ہندوستان کو
بدیسی دشمن کے مقابلے پر متحد رکھ سکتی
تھی -
( جاری
ہے )
بہت خوب ۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteقسط نمبر 7 اور 18 کے علاوہ باقی اقساط دستیاب نہیں ہورہی ہیں ۔۔۔۔۔۔
ذرا رہنمائی فرمائیں،. نوازش ہوگی ۔جزاکم اللہ خیرا