سر سید احمد خان یا برمودا ٹرینگل ;پہلا حصہ - نجیب ایوبی


سر سید احمد خان یا برمودا ٹرینگل
---------- 1857 کی جنگ آزادی کے ناکام ہوجانے اور مسلمان علماء و مجاہدین پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اس کی اگر مکمل نہیں پھر بھی اچھی خاصی تفصیل گزشتہ اقساط میں قارئین کی نظر سے گزر چکی ہیں - علماء کرا م کو کالا پانی کی سزائیں ، سر عام پھانسیوں پر لٹکانے اور جائدادیں ضبط کروانے کے بعد علماء کرام پر ایک عجیب و غریب وقت بھی آیا - جس میں ہوسکتا ہے حکمت یا مصلحتی اعتبار سے علماء نے مل جل کر اپنے لئے آسانی کا راستہ منتخب کیا ہو ، جیسے کہ عزیمت کے بجائے رخصت کا راستہ - رخصت کے راستے سے میری مراد علماء کا وہ فیصلہ ہے جس میں عتاب سے بچ جانے والے علماء کرام نے سیاسی میدان " اوروں" کے لئے خالی چھوڑ دیا اور خود مدارس اور محض دینوی خدمات کے لئے وقف ہوگئے - حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کو انگریز کی گرفتاری سے بچنے کے لئے مکہ مکرمہ جانا پڑا جہاں سے آپ نے اپنی دینی خدمات کو جاری رکھا -------------------------------- -میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کوئی غلط فیصلہ تھا - اسی لئے حکمت کا لفظ استمعال کیا ہے - لیکن اس طرز عمل اور فیصلے نے بعد میں آنے والے علماء و مشائخ کے لئے جو راستہ دیکھایا وہ خانقا ہ اور مدرسے کے دروازے پر چھوڑ کر آتا تھا - وہ سیاسی مقام جو شاہ ولی الله اور شاہ عبدالعزیز کو حاصل تھا ، 1857 کے بعد کے علماء کرام کے ہاتھ سےتقریبآ نکل چکا تھا - سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی جدوجہد اور پھر کچھ عرصہ اسلامی حکومت کا نمونہ جو سرحدی علاقوں میں قائم ہوا ، اس جنگ کے بعد اجتماعی اعتبار سے قوت نافذہ تحلیل ہوجانے سے مکمل طور پر ختم ہوگیا- مجموعی تاثر یہ رہا کہ علماء کرام اس عتاب سے بچنے کے لئے سیاسی میدان چھوڑ کر دین کے مسائل اور فتوؤں کی تقسیم کے معاملات سنبھال کر ایک گوشے میں بیٹھ رہے - یہیں سے کسی نے دیوبند مکتب فکر کی مسند سنبھالی تو کوئی سنت رسول کی ترویج و پیروی میں اتنا راسخ ہوا کہ ایک اور مکتب کی بنیاد رکھ دی جسے اب اہل حدیت مکتب سے جانا پہچانا جاتا ہے - وہ جہاد جس کی بنیاد الله کے نظام کا قیام تھا کہیں پیچھے ہی رہ گیا تھا - اسی اجتہاد و مصلحت کوشی کے سبب پوری کی پوری سیاسی کشمکش ان ہاتھوں میں چلی گئی جن کا اسلام ، جہاد اور دین سے کوئی گہرا اور شعوری واسطہ نہیں تھا - انیسویں صدی ایسی ہی سیاسی صدی ہے جس میں اسلام اور سیاست دو الگ الگ اصطلاحوں کے طور پر سامنے آئے - اسلام محض رسوم عبادیات اور پیدائش و تجہیز و تکفین کے مسائل کا نام بن گیا - جبکہ سیاست نظام حکومت چلانے اور بین القوامی معاملات کا نام بن کر رہ گئی- انگریز چونکہ ہندوستان میں قدم جمانے کے ساتھ ہی اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ آزادی کی تحریک کے اصل روح رواں مسلمان ہیں ، اور اس تجزیے کے نتیجے میں انہوں نے " پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو " کی پالیسی کو استمعال کیا - جس کے نتیجے میں اسلام کو محض رسوم عبادت کے مذھب تک محدود کردیا گیا جبکہ مجدد الف ثانی رح سے لیکر سید احمد شہید علیہ رحمہ تک اسلام شعوری اعتبار سے مکمل نظام حیات اور" دین " کا درجہ و مقام رکھتا تھا - " پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو " کا پہلا شکار مذہبی طبقہ ہی بنا ، ثقافتی و روایتی حوالے سے ہندوستان کا مسلمان مجاوری ، خان خوا ہی قبر پرستی کا مزاج رکھتا تھا چناچہ بریلوی مکتبہ فکر نے اسی مزاج کو آگے بڑھایا - انگریزوں کی حمایت میں اس مکتب فکر نے فتووں کا ا نبار لگا دیا ، دوسری طرف پوری کی پوری جہادی فکر مکتبہ دیوبند کے بچاؤ اور پھیلاؤ میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مشغول ہو گئیں - وہابی ، اہل حدیث ، بریلو ی اور لکھنؤ میں شیعت کو خوب مشتہر کیا گیا - ظاہر ہے ان تمام مذہبی تجربات کے پیچھے وہی سوچ کار فرما تھی جو انگریز نے لائن آف ایکشن کے طور پر متعارف کروائی تھی کہ " پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو " یہی نہیں بلکہ انگریز نے مسلمان اور ہندو تفریق پیدا کرنے کے لئے 1861 میں بنارس میں اردو اور ہندی تنا زع کھڑا کیا - جس میں یو پی کا گورنر انتونی میکڈانلڈ پیش پیش تھا - یوں مسلمان پہلے آپس کی مذہبی چپخلش میں الجھے پھر اردو، ھندی کی کشمکش میں الجھ کر انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے مقصد سے خاصی حد تک دور نکل گئے - ان حالات میں سر سید احمد خان مسلمانوں کے اصلاحی رہنماء کے طور پر ابھرے - سر سید احمد خان نے اپنے افکار و نظریات سے جہاں ہندوستان میں اپنا مقام بنایا ہماری نصابی کتب میں تو سر سید احمد خان کی وہی تصویر پیش کی جاتی ہے جو نظامت تعلیمات چاہتا تھا، سر سید کی شخصیت اور ان کی علمی خدمات اور ان سے اختلاف ، یہ ایک ایسا " برمودا ٹرینگل " ( برمودا تثلیث ) ہے جس کو سمجھنے کے لئے جب تک قاری کو جنگ آزادی 1857 سے پہلے اور بعد کے ہندوستان کے حالات کا جاننا ازحد ضروری ہے - چناچہ اسی باریکی و مجبوری کی وجہ سے مضمون کی ابتداء ہی میں تفصیلی تمہید کا سہارا لیا ہے - سر سید احمد خان کی شخصیت کے اس مثلث کو سمجھنے کے لئے ان کے کام اور نظریات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تو کچھ یوں شکل بنتی دکھائی دیتی ہے * سر سید کا پہلا دور --- ابتداء سے 1857 کی جنگ آزادی تک * دوسرا دور -----1857 کی جنگ آزادی سے ان کے سفر انگلستان تک * تیسرا دور ---- 1870 سے لیکر ان کی وفات تک سر سید کے والد کا جب انتقال ہوا اس وقت آپ کی عمر اکیس سال تھی ، گھر کا بوجھ سر پر تھا ، لہٰذا ملازمت کا ارادہ کیا اور اپنے خالو کے جاکر کچھ کام سیکھنا شروع کیا - خالو ایسٹ انڈیا کمپنی میں صدر امین تھے جن کی سفارش کام آئی -اور ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی -1829 میں رابرٹ ہملٹن کمشنر آگرہ بنا تو اس نے سیشن کورٹ میں منشی کا عہدہ لگوادیا - اس زمانے میں بھی اس نوعیت کی ترقی کے لئے قابلیت کے ساتھ ساتھ کچھ اضافی سہولیات بھی درکار ہوتی تھیں- بہر حال اس طرح انگریز کی قربت اور خداداد صلاحیتوں کی بناء پر سر سید کو دیگر لوگوں کی نسبت امتیازی مقام حاصل ہوتا چلا گیا- اگرچہ سر سید کا وہ کام جس کی بنیاد پر وہ برصغیر کے بہت بڑے اصلاحی رہنما اور دانشور کہے جاتے ہیں 1857 کے بعد کا ہے - لیکن ان کا ابتدائی کام بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا - جس میں وہ آثار الصنادید جسیی وقیح کتاب شامل ہے - سر سید احمد خان نے 1847 میں اپنے زمانے اور اس سے بھی بہت پہلے کے ماہرین علم و فنون سے متعلق ایک جامح تذکرہ مرتب کیا - اگر سر سید ان مشاہیر کا تذکرہ نہ لکھتے تو آج کوئی ان کے نام سے بھی واقف نہ ہوتا - اس تذکرے میں 119 عظیم ماہرین علم و فن کا ذکر ملتا ہے -1857 سے قبل سرسید کسی حد تک تنقید نگار کے طور پر بھی سامنے آئے انھوں نے اپنی مشکل طرز تحریر پر نظر ثا نی بھی کی اور دیگر شعراء اور لکھنے والوں کو بھی سہل پسندی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی - اور اس سے سہل پسندی سے ان کی مراد درحقیقت " عقلیت پسندی" تھی- یہ اس دور کا وہی " نیا پن " تھا جو ان کے ہمعصر رفقاء کو سمجھ آگیا تھا - 1857 کی پوری کشمکش سر سید احمد خان کے سامنے کی بات تھی - اس عظیم جدوجہد کی رد میں جب " اسباب بغاوت ہند " سامنے آیی تب بہت سوں پر کچھ راز افشاء ہونے شروع ہوئے - اور اس طرح سر سید نے انگریز سے حق دوستی نبھایا - حا نلآنکہ 1842 تک جب وہ فتح پور سیکری میں منصفی کی نوکری پر تھے اس وقت تک خاصی حد تک شاہ اسماعیل اور سید احمد شہید کی اصلاحی تحریک سے متاثر تھے اور ان کی تائید میں کئی مضامین لکھ جن میں راہ سنت و رد بدعت بھی شامل ہیں - لیکن جنگ آزدی کے بعد کے حالات کا سرسید پچھلے دور کے سید احمد خان سے یکسر مختلف دکھائی دیتا ہے - یہ جنگ آزادی سر سید احمد خان کے لئے ایک ٹرننگ پوا ئنٹ ثا بت ہوئی - اس وقت کے سیاسی قیادت کے قحط الرجال اور جدید یت اور عقلیت پسندی کے نعرے نے سر سید احمد خان کو ہندوستان کی سطح پر ایک عظیم دانشور بنا دیا - سر سید جب " اسباب بغاوت ہند " تحریر کرتے ہیں تو تمام تر جدوجہد کے سامنے ہتھیاروں سے لیس ہوکر مجاہدین پر برستے دکھائی دئیے-اس وقت کے سیاسی قیادت کے قحط الرجال اور جدید یت اور عقلیت پسندی کے نعرے نے سر سید احمد خان کو ہندوستان کی سطح پر ایک عظیم دانشور بنا دیا - ۔1857 کی جنگ آزادی مسلمانان برصغیر کی طرف سے فرنگی سامراج کے خلاف جہاد کی شاندار تاریخ ہے۔ مسلمانان برصغیر اس پر جتنا فخر کریں کم ہے کہ انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کے سب سے مضبوط ترین اور ظالم ترین استعمار سے ٹکر لی اور اسے ہلا کررکھ دیا۔ ایسی قربانیوں کے تسلسل سے ہی ہم نے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، لیکن سرسید صاحب اس جدوجہد پر خاصے ناراض اور برہم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں " " جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت ذیادہ ناراض ہوں اور حد سے ذیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوں ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ’کی ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ ذیادہ تر ان سے ناراض ہواجائے:۔(مقالات سرسید، صفحہ 41)۔ انگریز سرکار کے متعلق سرسید صاحب کے دلی خیالات خود انکی زبانی سنتے ہیں :۔ " میرا ارادہ تھا کہ میں اپنا حال اس کتاب میں کچھ نہ لکھوں کیونکہ میں اپنی ناچیز اور مسکین خدمتوں کو اس لائق نہیں جانتا کہ ان کو گورنامنٹ (فرنگی)کی خیر خواہی میں پیش کروں۔ علاوہ اس کے جو گورنامنٹ نے میرے ساتھ سلوک کیا وہ درحقیقت میری مسکین خدمت کے مقابل میں بہت ذیادہ ہے اور جب میں اپنی گورنمنٹ کے انعام و اکرام کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی ناچیز خدمتوں پر خیال کرتا ہوں تو نہایت شرمندہ ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ نے مجھ پر اسے سے ذیاہ احسان کیا ہے جس لائق میں تھا، مگر مجبوری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو ضرور ہے کہ اپنا حال اور اپنے خیالات کو لوگون پر ظاہر کرے ، تاکہ سب لوگ جانیں کہ اس کتاب کے مصنف کا کیا حال ہے ؟ اور اس نےاس ہنگامے میں کس طرح اپنی دلی محبت گورنمنٹ کی خیر خواہی میں صرف کی ہے ؟" ۔ (مقالات سرسید، صفحہ 44) پھر خود ہی لکتھے ہیں کہ" اس کے عوض سرکار نے میری بڑی قدر دانی کی عہدہ صدر الصدوری پر ترقی دی اور علاوہ اس کے دو سو روپیہ ماہواری پنشن مجھ کو اور میرے بڑے بیٹے کو عنایت فرمائے -اور خلعت پانچ پارچہ اور تین رقم جواہر ایک شمشیر عمدہ قیمتی ہزار روپے کا اور ہزار روپے نقد واسطے مدد خرچ کے مرحمت فرمایا - (مقالات سر سید صفحہ 48) اس کے ساتھ ایک سرٹیفکیٹ بھی موجود ہے جس پر جان کرائی کرافٹ ولسن صاحب کے دستخط بطور سند بھی موجود ہے- " انگلش گورنمنٹ سے محبت و یگانگت اور رفاقت و خیر خواہی کا سلسلہ قائم کروانے کے لیے خاں صاحب عمر بھر کوشاں رہے۔ ( جاری ہے )



Comments

  1. آج پھر پڑھا نجیب بھائی، آپ نے واقعی تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے

    ReplyDelete

Post a Comment