ادب و فن میں فحش — محمد حسن عسکری‎

 
نئی شاعری
یہ شکایت بہت عام ہے کہ نئی شاعری میں گھناؤنی اور نفرت انگیز چیزوں کا ذکر ہوتا ہے۔ “مداوا” میں ایک صاحب نے کلیہ قائم کیا ہے کہ گندی چیزوں کے ذکر اور شاعری کا میل نہیں ہو سکتا۔ حالاں کہ اسی مضمون میں آپ پہلے کہہ آئے ہیں کہ شاعر موضوع کے انتخاب میں بالکل آزاد ہے۔ نئے شاعروں کی رہنمائی کے لیے جن شاعروں کا نام لیا گیا ہے، ان میں شیکسپیئر کا نام بھی شامل ہے۔ اس لیے میں فرض کرتا ہوں کہ اسے آپ بڑا شاعر سمجھتے ہیں، گو یہ تو یقینی ہے کہ آج سے آپ اس سے نفرت کرنے لگیں گے۔ شیکسپیئر کا دستور ہے کہ وہ ہر ڈرامے کی تشبیہات اور استعارات اور تصورات کا ایک خاص نقشہ بنا لیتا ہے جو ڈرامے کی فضا سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔
 تو جناب شیکسپیئر نے ایک ڈرامہ لکھا ہے، جس کا نام ہے “ہیملیٹ”۔ اور اس ڈرامے کو عموماً شیکسپیئر کی سب سے بڑی تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن شیکسپیئر کی کور ذوقی ملاحظہ ہو کہ اس سب سے بڑی تصنیف کے تصورات کا نقشہ مشتمل ہے پھوڑے، پھنسیوں اور پیپ وغیرہ پر، اس ایک ڈرامے میں وہ ان چیزوں کی تمام ممکنہ قسمیں گنوا چکا ہے۔ اسی طرح “اوتھیلو” میں استعارے لیے گئے ہیں، گھناؤنے اور نفرت انگیز جانوروں سے۔
 آرٹ میں کوئی چیز ویسی نہیں رہتی جیسی وہ زندگی میں ہے، آرٹ اس کی ماہیت تبدیل کر دیتا ہے۔ یہاں روزمرہ کی زندگی کا اچھا اور برا نہیں دیکھا جاتا بلکہ بجا اور بے جا استعمال۔ گندگی کے خلاف ایک کلیہ نہ قائم کیجیے بلکہ انفرادی طور پر اس کا استعمال دیکھیے اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی “پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے ” کو بے محل نہیں بتا سکتے۔ یادش بخیر، فحش اور عریانی ! اس کی شکایتیں تو مدت سے ہو رہی ہیں لیکن آپ نے ابھی تک نہیں بتایا کہ آپ کس چیز کو فحش سمجھتے ہیں ؟ نظم نقل کر کے اس کی نیچے “فحش” لکھ دینے سے تو کام نہیں چلتا۔ فحش کی تعریف تو کیجیے۔ اپنی طرف سے تو میں فحش کی تعریف پہلے بھی کر چکا ہوں اور اب پھر دہراتا ہوں۔ میں اصل میں کسی لفظ کو بذات خود فحش نہیں سمجھتا، صرف اس کا استعمال اسے فحش یا غیر فحش بناتا ہے۔ 
لیکن آپ حضرات کو تو محض مخالفت منظور ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ آپ “وہ گئی” کو بھی فحش کہیں گے۔ آپ نئے شاعروں پر سطحی دل و دماغ رکھنے کا الزام لگاتے ہیں مگر آپ خود نئی شاعری کو سطحی طور پر پڑھتے ہیں، جبھی تو آپ اس میں عورت پرستی اور شباب پرستی دیکھتے ہیں اور “کھاؤ پیو، مگن رہو” کا نظریہ نئے شاعروں کے سر مڑھے دے رہے ہیں … بہرحال اب میں آپ کے سامنے نئے شاعروں کی عورت پرستی کی مثال پیش کروں گا۔ فیض کی نفس پرستی ملاحظہ ہو، محبوب سے کہتے ہیں ع اب بھی دلکش ہے تراحسن مگر کیا کیجیے محبت کے دکھوں اور راحتوں کے علاوہ اور بھی سکھ دیکھ رہے ہیں۔ محبوب کو پہلی سی محبت بھی نہیں دے سکتے۔ منھ پھٹ اور دریدہ دہن کہ اس سے صاف کہے دے رہے ہیں : تو اگر میری ہو بھی جائے دنیا کے غم یوں ہی رہیں گے توبہ توبہ، کیسی گھناؤنی خواہشیں ہیں کہ وصل کی آرزو میں نہیں مرتے بلکہ محبوبہ سے اخلاقی سبق سیکھنا چاہتے ہیں ؂ عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی یاس و حرماں کے دکھ درد کے معنی سیکھے زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا سر د آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے راشد کی آلودگیاں دیکھیے۔ محبوبہ کی بانہوں میں بڑے آرام سے پڑے رہنے کے بجائے اٹھ اٹھ کر بھاگ رہے ہیں۔ خونخوار درندوں کے غول سے وطن کو بچانا چاہتے ہیں۔ کیا ہولناک ہوس کاری ہے کہ بستر کی لذتوں سے جان چھڑا کر بیچاری محبوبہ کو مفلسوں، بیماروں کے ہجوم دکھا رہے ہیں۔ اسے لے کر سر زمین عجم جانا چاہتے ہیں، جہاں خیر و شر، یزداں و اہرمن کا فرق مٹ گیا ہو۔ اس پر یہ ظلم ڈھاتے ہیں کہ ؂ مجھے آغوش میں لے دو ‘انا’ مل کے جہاں سوز بنیں اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے یہ جذبی ہیں، طوائف سے جنسی آسودگی حاصل کر کے واپس نہیں چلے آتے بلکہ اس کی پست نگاہی کا گلہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اوروں کو چھوڑیے، بیچارا مخمور تک نفس پرستی کو پسند نہیں کرتا بلکہ “لہو کی جوانیاں ” میں تو اس کا انداز بڑا واعظانہ ہے۔ فرق کی بوالہوسی بھی دیکھنے کی چیز ہے ؂ ملے دیر تک ساتھ سو بھی لیے بہت وقت ہے آؤ باتیں کریں وصل سے بھی ان کی پیاس نہیں بجھتی، جنسی جذبے کو احساس رفاقت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہے نئے شاعروں کی عورت پرستی جس پر جتنی لعنتیں بھی بھیجی جائیں کم ہیں۔
 نئی شاعری کی بنیاد جنسی الجھنوں پر بتانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کون سا اردو شاعر ہے جس کی شاعری اسی بنیاد پر قائم نہ ہو۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہر شاعری خواہ وہ متصوفانہ ہو یا عارفانہ ہی کیوں نہ ہو، جنسی جذبے کی ارتفاع پائی ہوئی شکل ہوتی ہے لیکن بغیر ارتفاع کے بھی جنسی الجھنیں اچھی سے اچھی شاعری کا موضوع بنتی رہی ہیں۔ شاعری اندرونی تصادم اور کشمکش سے پیدا ہوتی ہے اور یہ کشمکش جتنی تیز اور تند ہو گی، اتنا ہی شعریت کا رنگ نکھرے گا۔ نئی شاعری میں صرف و محض ہوس کاری نہیں ہے بلکہ ہر جگہ ایک شدید کشمکش کے نشان ملتے ہیں اور یہ شدت بعض اوقات زیادہ صاف الفاظ استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ جنسی الجھنیں صرف اردو کے شاعروں ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ عالم گیر ہیں۔ ہمارے شاعروں میں احساس اور اعتقاد کا تصادم ہو رہا ہے، خواہشات اور روایات کا، نئے علم اور پرانی قدروں کا، جنسیات اور اقتصادیات کا۔ ایک طرف پرانی روایات ہیں جو پاک اور غیر جسمانی محبت پر زور دیتی ہیں۔ دوسری طرف شاعر کی جنسی خواہشیں ہیں، نئی نفسیات ہے جو پاک محبت کا بڑا بے رحمانہ تجزیہ کرتی ہے جس کے نزدیک محبت دائمی نہیں بلکہ وقتی جذبہ ہے۔ نیا شاعر ان دو اصولوں کے درمیان لٹکا ہوا ہے اور ان میں سے کسی کو بھی چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔ مثالیں راشد کے یہاں دیکھیے ؂ یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو کہ ایک زہر سے لب ریز ہے شباب مرا گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے یا دوسری جگہ ؂ وقت کے اس مختصر لہجے کو دیکھ تو اگر چاہے تو یہ بھی جاوداں ہو جائے گا مطمئن باتوں سے ہو سکتا ہے کون روح کی سنگین تاریکی کو دھو سکتا ہے کون تیسری جگہ راشد نے ان دونوں اصولوں میں سمجھوتے کی کوشش کی ہے ؂ میں جو سرمست نہنگوں کی طرح اپنے جذبات کی شوریدہ سری سے مجبور مضطرب رہتا ہوں مدہوشی و عشرت کے لیے اور تری سادہ پرستش کے بجائے مرتا ہوں تیری ہم آغوشی کی لذت کے لیے میرے جذبات کو تو پھر بھی حقارت سے نہ دیکھ اور مرے عشق سے مایوس نہ ہو کہ مرا عہد وفا ہے ابدی بالکل یہی کشمکش اور شاعروں کے یہاں موجود ہے۔ آپ اسے نظر انداز کر جاتے ہیں جو شاعری کی روح ہے اور صرف لفظ پڑھ پڑھ کر اس شاعری کو فحش کہنے لگتے ہیں۔
 حال ہی میں ایک صاحب نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر موجودہ جنسی اقدار مصنوعی ہیں تو شاعروں کے پاس جنسیات کی نئی اقدار کیا ہیں ؟ لیکن نئے شاعر کسی عریانی کے کلب کا اعلان نامہ تو مرتب نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان نظموں میں بعض پابندیوں سے بیزاری اور بعض آزادیوں کی پسندیدگی کا اظہار ملتا ہے لیکن وہ چیز جو شاعری کے لیے فائدہ مند ہے، دو قسم کی قدروں کا تصادم ہے نہ کہ نئی قدروں کی مجوزہ فہرست۔ ایک نیا جنسی عنصر ہماری دنیا میں پیدا ہوا ہے جس کا بہترین اظہار ڈی۔ ایچ۔ لارنس نے کیا ہے اور جس کی ہمارے یہاں ابھی صرف پرچھائیاں بھی ملتی ہیں۔ یہ ہے خود پرستی اور جنسی جبلتوں کی لڑائی۔ پہلی جبلتوں کا تقاضہ ہے کہ اپنی انفرادیت کو سب سے الگ اور نادر الوجود بنائے رکھا جائے لیکن جنسی خواہش دوسرے فرد سے ملنے پر مجبور کرتی ہے اور یہ مجبوری انفرادیت کے پرستار کو فطرت کا ظلم معلوم ہوتی ہے۔ وہ جنسی جذبے کو اپنے لیے ایک صلیب سمجھنے لگتا ہے۔ جنسیت سے یہ ڈر اور نفرت لارنس کے یہاں جس عریانی کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے، اگر اس کا شائبہ بھی اردو میں پایا جائے تو شاید آپ کتابیں جلانے لگیں لیکن ہم لارنس کی اس عریانی کو کسی طرح بھی فحش نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ اس کے اظہار کے لیے یہ عریانی ضروری ہے۔ سب سے بڑی چیز جو نئی نسل کو جنس پر اتنی توجہ صرف کرنے پر مجبور کرتی ہے، وہ ایسی چیزوں اور ایسے اصولوں کی کمی ہے جن پر اپنے جذبات خرچ کیے جا سکیں۔ اس ماحول میں جس سے نئی نسل اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں پاتی، جب اسے اپنے جذبات کی آسودگی کا سامان نہیں ملتا، تو وہ زائد جذبے جنس کی طرف ڈھلک جاتے ہیں۔ اس ماحول سے ہم آہنگی تو الگ، نیا شاعر تو اسے اپنے دشمن کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ چونکہ وہ اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پاتا، اس لیے لازمی طور پر اپنے احساس شکست کو جنسی جذبے میں چھپا دینا چاہتا ہے اور صاف صاف اس کا اقرار بھی کر لیتا ہے ؂ زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں یہی مجروح اور شکست خوردہ ذہنیت جب اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تو اجنبی عورت کے جسم سے انتقام لینا شروع کر دیتی ہے۔ آپ لوگوں نے اس نظم “انتقام” پر راشد کو بہت طعنے دیے ہیں لیکن وہ غریب تو خود اپنے آپ کو طعنہ دے رہا ہے، خود اپنے اوپر استہزا کر رہا ہے۔ آپ اس کا لہجہ نہ سمجھیں تو وہ کیا کرے۔ یہ نظم جنسی نہیں ہے جیسا کہ آپ سمجھے ہیں، بلکہ سیاسی اور اخلاقی۔ ایسی نظموں میں راشد اپنی گھناؤنی خواہشوں کا اظہار نہیں کرتا بلکہ قوت ارادی اور “جینے کی خواہش” کی کمزوریوں اور بیماریوں کا تجزیہ۔ محض عشرت پسندی اور تن آسانی اور “کھاؤ پیو، مگن رہو” والا نظریہ آپ کو کسی نئے شاعر میں نہیں مل سکتا۔ ہر شاعر کی آواز دکھی ہوئی اور چوٹ کھائی ہوئی ہے۔ صرف لفظوں پر غور نہ کیجیے بلکہ روح سمجھیے۔ کبھی آپ نے یہ بھی سوچاہے کہ نئے شاعر کو اپنی “ہوس کاری” میں سکون بھی ملتا ہے یا نہیں، یا پھر بھی اس کے اندر اسی طرح خلائیں پھیلتی رہتی ہیں۔ جن نظموں کو آپ فحش بتا رہے ہیں، انھیں پھر سے پڑھیے “بے کراں رات کے سناٹے میں “، اس نظم کا شاعر اپنے آپ کو جنسی لذت میں ڈبو دینے پر مجبور ہے لیکن ساتھ ہی وہ اس سے ہچکچا بھی رہا ہے۔ جنس سے لذت لینے کے لیے اسے ایک قصہ گھڑنا پڑتا ہے کہ اس کی محبوبہ “جو شاید بیوی ہے ” کسی ساحل کی دوشیزہ ہے اور وہ خود اس کے دشمن ملک کا تھا ہوا سپاہی ہے اور ہم آغوشی سے اپنی تھکن کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ اس افسانے کا جادو چلتا تو ہے لیکن تھکن، پیاس، غیر آمادگی، گراں باری کے اثرات پھر بھی قائم رہتے ہیں ؂ نیند آغاز زمستاں کے پرندے کی طرح خوف دل میں کسی موہوم شکاری کا لیے اپنے پر تولتی ہے چیختی ہے ٭ آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح رینگتی ہی ں درحقیقت یہ وہ کیفیت ہے جب “زنا” سے زیادہ آسان اور آرام دہ تو خود کشی نظر آتی ہے۔ میرا جی اس بے لطفی اور بے رنگی کے احساس میں دو ہاتھ اور آگے ہیں۔ وہ محبوبہ کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی اداس ہو جاتے ہیں اور سوچنے لگتے ہیں کہ آخر ایسا کیا فرق پڑ جائے گا؟ یہ ہے نئے شاعروں کا تعیش۔ ان آلودگیوں کی اور مثالیں بھی دوں گا۔ یہ تاثیر ہیں جو حسینوں کی بانہوں میں حصار عافیت ڈھونڈنے والے کو شہ دے رہے ہیں ؂ تمناؤں میں الجھاتا رہے گا دل کو تو کب تک کھلونے دے کے بہلاتا رہے گا دل کو تو کب تک ہوس کی ظلمتیں چھائی ہوئی ہیں تیری دنیا پر یہ وشوا متر عادل جو ہیں، اپنی جنسی فتح پر خوشی کے نعرے لگا رہے ہیں ؂ مری تڑپتی ہوئی روح پھڑپھڑاتی ہے نحیف زیست سے عاری ہے پر بھی ٹوٹے ہوئے مگر یہ رینگتے لمحوں کی چیونٹیاں چپ چاپ لپٹ لپٹ کے اسے بار بار چومتی ہیں یہ اختر الایمان ہیں، نیند سے پہلے مزے لے لے کر اپنی گھناؤنی خواہشیں بیان کر رہے ہیں ؂ اشک بہہ جائیں گے آثار سحر سے پہلے خون ہو جائیں گے ارمان اثر سے پہلے سرد پڑ جائے گی بجھتی ہوئی آنکھوں کی پکار گرد برسوں کی چھپا دے گی مرا جسم نزار جاگتے جاگتے تھک جاؤں گا سو جاؤں گا آپ اس حزن و ملال کو کیوں نہیں دیکھتے، سب سے پہلے آپ کی نظریں عریانی پر کیوں پڑتی ہیں ؟ اس وجہ سے کہ آپ خود شاعری نہیں کر سکتے، لیکن اگر واقعی خلوص کے ساتھ آپ اس انداز بیان کو پسند نہیں کرتے تو ان شاعروں کی الجھنیں دور کرنے میں مدد کیجیے۔ ان کے ساتھ مل کر دنیا کو بدلیے۔ اس پر خوب یاد آیا۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ اگر یہ شاعری بدلے ہوئے حالات نے پیدا کی ہے تو اسے دیکھ کر بدلے ہوئے حالات سے بھی نفرت ہو جاتی ہے۔ جی، ہم اور کیا چاہتے ہیں ؟ جادو سر پر چڑھ کے بولا۔ جب ہم اس سماجی ماحول سے آپ کو نفرت دلانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر آپ نے ہمارا نقطۂ نظر قبول کر لیا۔ خیر، کم سے کم آپ نا انصافی تو نہ کریں اور اور اس روحانی تشنج کو ہوس کاری کا نام تو نہ دیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ جب وقت آئے گا تو طربیہ شاعری بھی یہی آپ کے خادم کریں گے۔ آپ کے بس کا یہ روگ بھی نہیں ہے ؂ کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھا ہے بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی لیکن اگر چند ایسے چھوٹے موٹے شاعر موجود ہیں جو محض جنسی لفظوں کے بل پر شاعری کرنا چاہتے ہیں تو ان سے اس قدر گھبرا جانے کی کیا وجہ ہے ؟ اور پھر اس قدر گھبرا جانا کہ سرکاری وزیروں کے پاس وفد لے کر جار ہے ہیں، بسورتے ہوئے کو “ہمیں چھیڑا”…نئے شاعروں پر بگڑتے وقت تو آپ بھی ملٹن کے شعر نقل کرتے ہیں۔ لیکن جب آپ اسے اتنا بڑا شاعر مانتے ہیں تو اپنے آپ اس سے سبق کیوں نہیں لیتے ؟ کبھی اس کی “ایروپیجٹیکا” (Areopagitica) تو کھول کر دیکھیے کہ وہ کتابوں پر پابندیوں کا کتنا مخالف تھا۔ ملٹن کی بنیادی دلیل ہی یہ تھی کہ ہر شخص کو انتخاب کی آزادی ہونی چاہیے۔ بلکہ بری کتابیں پڑھے بغیر اچھی کتابوں کی تمیز ممکن ہی نہیں۔ اگر آپ کسی نظم کو فحش سمجھتے ہیں تو وجہ بتائیے، اس پر بحث کیجیے۔ اگر آپ نے ثابت کر دیا کہ اس نظم میں شاعری نہیں ہے تو چلیے قصہ ختم ہوا۔ کوئی اسے پڑھے گا ہی نہیں اور وہ اپنے آپ مر جائے گی۔ جتنا وقت آپ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے میں صرف کرتے ہیں، اگر اسے آپ لوگوں کا ذوق بلند کرنے میں لگائیں تو فحش پنپ ہی نہیں سکتا۔ لیکن جنس کے اظہار پر پابندیاں اور تعزیریں عائد کر نے کا نتیجہ ہمیشہ عریانی کی چوگنی ترقی ہوتا ہے۔ کرومویل کے زمانے میں ڈرامے کو مخرب اخلاق سمجھ کر اسٹیج کو قانوناً بند کر دیا گیا۔ دس سال کے بعد جب پابندیاں ہٹیں اور تھیٹر کھلے تو جو مواد، اس دوران میں پکتا رہا تھا، اس زور سے ابلا کہ ہر ڈرامہ نگار نے زناکاری کو اپنا موضوع بنا لیا۔ لیکن اگر آپ واقعی خلوص کے ساتھ چند پابندیاں ضروری سمجھتے ہیں تو کھوئی کھوئی باتیں نہ کیجیے، فحش کی واضح تعریف بتائیے اور اس کی روشنی میں نئے شاعروں کی بد عنوانیاں گنوائیے۔ معلوم نہیں غالب آپ کے نزدیک قابل استناد ہے یا نہیں، لیکن آپ کے معلومات کے لیے فحش کی وہ تعریف سناتا ہوں جو انھوں نے تیغ تیز میں مہیا کی ہے۔ اصل عبارت تو میرے سامنے موجود نہیں ہے لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ فحش صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اعضائے تناسل کا ذکر ہو یا کسی کی ماں، بیٹی یا جورو پُنی جائے۔ اس تعریف کو معیار بنا کر جانچیے تو کسی نئے شاعر کا ایک مصرعہ بھی گرفت نہیں آ سکتا۔ اگر میرا جی نے اعضائے تناسل کا ذکر کیا ہے تو ایسے چکر دار طریقے سے کہ بعض وقت آپ حضرات انھیں اہمال کا مجرم گرداننے لگتے ہیں۔ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ جنسیات کو خوب پردوں میں ڈھکا چھپا کر محفل میں لاؤ، جب آپ کے ارشاد کی تعمیل ہوتی ہے تو آپ پھر بگڑتے ہیں کہ اس کپڑوں کی پوٹلی میں ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اس فحاشی والے اعتراض کا دم چھلہ یہ الزام ہے کہ نئی شاعری اخلاقی قدروں کے لیے تباہ کن ہے۔ نئے شاعروں کے سامنے واقعی ترقی کا کوئی بلند مقصد نہیں ہے اور ایک نظم بھی ایسی نہیں ملتی جس سے سماج کی خدمت انجام دی جا سکتی ہو۔ پہلے تو یہ بتائیے کہ آپ حضرات جو شاعری کرتے ہیں، اس سے سماج کی کیا خدمت ہوتی ہے، یا کچھ دن گذرے پارسی دوشیزاؤں اور رقاصاؤں کو دیکھ کر نیاز فتح پوری صاحب ریشہ خطمی ہوا کرتے تھے، ان کی تمام رقت کون سی اخلاقی عمارت کے لیے گارے کا کام دے رہی ہے ؟ پھر جب آپ خود قبول چکے کہ شعر میں آپ رنگینی اور مکروہات دنیوی کے بھلانے کا سامان چاہتے ہیں تو یہ دوشیزہ (لفظ دوشیزہ کی چیختی فحاشی پر نظر رکھیے ) کی ننگی باہیں دیکھ کر “سی سی” کرتے ہیں۔ نیا شاعر اجنبی عورت کے بستر پر اپنے ذہن کو دلدل بنا لینا چاہتا ہے۔ چلیے، دونوں برابر۔ آپ کا اعتراض ٹھیٹ ریاکاری بلکہ نیا شاعر آپ سے اس طرح اخلاقی حیثیت سے بلند ہے کہ ذرا سی ہونٹوں کی سرخی آپ کو ایسا مست کر دیتی ہے جیسے دونوں جہان کی دولت مل گئی ہو۔ اور نیا شاعر ہم آغوشی، بلکہ لذت اندوزی کے دوران میں بھی اعتراف کر لیتا ہے کہ شہوانیت محض ایک ریگ زار ہے۔ لیکن اگر آپ کو اخلاقی تنقید سے ایسا ہی پیار ہے تو مجھے بھی کوئی عذر نہیں ہے بلکہ میرے سب سے محبوب نقادوں میں سے ایک ارونگ بینٹ ہے جس نے اخلاقیات کی لکڑی سے پچھلے ڈیڑھ سو سال کے ادب کو ایسا دھنا ہے کہ ادھ موا ہی کر کے چھوڑا ہے لیکن اسے کیا کیا جائے کہ آپ کے نزدیک اخلاقیات کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ کس عورت کے ساتھ سویا جا سکتا ہے اور کس کے ساتھ نہیں۔ عیسوی اخلاق کے انکسار، یونانیوں کے تصور عدل اور ہندوؤں کے عقیدے سے روح کائنات سے ہم آہنگی کا تو آپ نے نام بھی نہیں سنا معلوم ہوتا۔ اور نہ آپ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ روحانی دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں جاتی اور زندگی کا ہر تجربہ ایک اخلاقی قوت ہوتا ہے۔ دوبارہ سوچیے کہ آپ ایسی نسل کی شاعری کو اخلاق کے منافی کہہ رہے ہیں، جس نے نئی اخلاقی اقدار دریافت کرنے کا بار گراں اٹھایا ہے جو بڑے سے بڑا جرأت طلب تجربہ کرنے سے بھی نہیں گھبراتی، جو اپنی تمام ہزیمت خوردگی، تشکک اور ذہنی بحران کے باوجود زندگی پر کچھ ایسا بھروسہ کرتی معلوم ہوتی ہے کہ منفی عناصر سے بھی مثبت فوائد کا پھل لینے کی امید کرتی ہے۔ غبار راہ کے اشارے سنبھال لیتے ہیں افق کے دھندلے کنارے سنبھال لیتے ہیں سنا ہے ٹوٹتے تارے سنبھال لیتے ہیں بس ایک بار سہی ڈگمگا کے دیکھ تو لوں یہ وہ نسل ہے جو اپنے ستواں جسم کو رقاصاؤں کے بازوؤں کی پھڑک پر پگھلا پگھلا کر ختم نہیں کر دینا چاہتی بلکہ جسم و زباں کی موت سے پہلے سچ کی حمایت میں بولنا چاہتی ہے۔ جو محبوبہ سے ذاتی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے بجائے ایک جہاں سوز “انا” کی تشکیل کی آرزو مند ہے۔ کیوں نہ جہان غم اپنا لیں بعد میں سب تدبیریں سوچیں بعد میں سکھ کے سپنے دیکھیں سپنوں کی تعبیریں سوچیں نیا شاعر جب زندگی سے بھاگ کر عورت کے سینے میں پناہ لیتا ہے تو اپنے فرار کو خوب صورت ناموں کے پیچھے نہیں چھپاتا۔ ساتھ ہی اس کی کشش کا مرکز ہمیشہ نسائی جسم کے نشیب و فراز بھی نہیں ہوتے ؂ ایک سودا ہی سہی آرزوئے خام سہی ایک بار اور محبت کر لوں ایک انسان سے الفت کر لوں نہ وہ زندگی کے مظاہرے سے اتنا ڈرتا ہے کہ ان جانے اور ان دیکھے ہوئے کے خوف کے مارے روایتی اخلاقیات کے بند کمرے سے قدم باہر نہ نکالے۔ وہ اہرمن سے اس کے تہہ خانے میں ملاقات کرنے پر آمادہ ہے۔ نئے شاعروں کا دل گردہ دیکھیے۔ یا اتر جاؤں گا میں پاس کے ویرانوں میں اور تباہی کے نہاں خانوں میں تاکہ ہو جائے مہیا آخر آخر حد تنزل ہی کی ایک دید مجھے اور یہ خوش نصیبی داد کی مستحق ہے کہ تباہی کے نہاں خانوں میں بھی وہ “نور کی منزل آغاز” کی ایک جھلک دیکھ پانے سے نا امید نہیں ہوتا۔ اور کچھ نہیں تو اس کی تسلی کے لیے یہی بہت کافی ہو گا کہ اپنی جرأت پرواز کا اندازہ ہو جائے۔ اب میں ایسے موضوعات پر شعر پیش کروں گا جو سو فی صدی جنسی ہیں اور ایک ایسے شاعر کے، جو آپ کے خیال میں اپنے آپ تو ڈبوئے گا ہی مگر اوروں کو بھی لے ڈوبے گا۔ میراجی نے جو تخریبات جنسی کا درس دینے کے لیے مدرسہ کھول رکھا ہے، میں آپ کو وہاں لے چلتا ہوں۔ یہ حضرت روز نت نئی عورت چاہتے ہیں اور کسی ایک کا ہو کر رہنے کا جھنجھٹ اپنے ذمے نہیں لیتے۔ وہ اس پر فخر کریں تو کریں لیکن ان کی سب سے بڑی حرام کاری تو یہ ہے کہ جنسی لذت کی چسکیاں نہیں لیتے رہے بلکہ زندگی کے انقلابات انسان کی فطرت اور نظام کائنات کے متعلق سوچنے لگتے ہیں اور حیرت میں ڈوب جاتے ہیں ؂ اور چاند چھپا تارے سوئے طوفان مٹا ہر بات گئی دل بھول گیا پہلی پوجا من مندر کی مورت ٹوٹی دن لایا باتیں انجانی پھر دن بھی نیا اور رات نئی پیتم بھی نئی پریمی بھی نیا سکھ سیج نئی ہر بات نئی اک پل کو آئی نگاہوں میں جھلمل جھلمل کرتی پہلی سندرتا اور پھر بھول گئے ہم اس دنیا کے مسافر ہیں اور قافلہ ہے ہر آن رواں ہر بستی ہر جنگل صحرا اور روپ منوہر پربت کا ایک لمحہ من کو لبھائے گا ایک لمحہ نظر میں آئے گا ممکن ہے کہ آپ یا میں اس جنسی اخلاق کو قبول نہ کریں لیکن ہمارے سامنے شادی کے مسئلے پر برٹرینڈ رسل کی کتاب تو ہے نہیں، ایک نظم ہے، اور اسی حیثیت سے ہم اس پر غور کریں گے۔ شاعرانہ تخیل یہی تو کرتا ہے تاکہ کسی مخصوص جذبے کو عالم گیر زندگی کے پس منظر میں رکھ کر دیکھے اور یہی اخلاقیات کا عمل ہے۔ 
ایک احساس یا فعل کو پورے نظام زندگی میں جگہ دینا۔ یہی اس نظم میں کیا گیا ہے۔ بلکہ جب ہم یہ نظم ختم کرتے ہیں تو ہم آزاد محبت کے حسن و قبح پر بحث نہیں کر رہے ہوتے۔ یہ نظم ہمارے ذہن میں نظام زندگی پر تحیر کا جذبہ اور ایک ہلکی سی افسردگی چھوڑ جاتی ہے۔ اس نظم کی ٹھسک سے پھوٹ بہنے کا ڈر کسی کچ پیندیے ہی کو ہو سکتا ہے۔ انفرادی، عارضی، وقتی بلکہ معمولی سے جنسی جذبے تک کو فوراً کائناتی زندگی سے متعلق کر لینا میرا جی کی خصوصیت ہے جو غالباً وشنو شاعری کے اثر سے ان میں پیدا ہوئی ہے، مثال دیکھیے ؂ آج اشنان کیا گوری نے (آج بھلا کیوں نہائی؟) یہ سنگار چال مایا کا اس نے کس سے نبھائی اگر میں آپ کو یہ خبر سناؤں کہ میراجی نے اپنے پہلے جنسی اتصال کے متعلق ایک نظم لکھی ہے تو آپ اس کے سوا اور کچھ تصور ہی نہیں کر سکیں گے کہ انھوں نے اپنی کار کردگی کی داستان بڑے چٹخارے لے لے کر بیان کی ہو گی۔ لیکن یہ جان کر آپ مایوس ہوں گے کہ دوسری لائن ہی میں وہ انسانی زندگی پر خیال کی حکمرانی کی طرف بھٹک جاتے ہیں ؂ اب کچھ نہ رہا مٹی میں ملا جو دھن تھا پاس وہ دور ہوا وہ دھن بھی دھیان کی موج ہی تھی مچلی ابھری ڈوبی کھوئی پھر اسی واردات سے میرا جی کو اپنے گذشتہ زندگی پر ایک نظر ڈالنے کی تحریک ہوتی ہے۔
 غور کیجیے گا کہ اتنی غمگین آواز کسی شہوت پرست یا عیاش طبع کی نہیں ہو سکتی ؂ یہ دنیا ایک شکاری تھی کیا جال بچھایا تھا اس نے دو روز میں ہم نے جان لیا سکھ اور کا ہے اور دکھ اپنا سنجوگ کے دن گنتی میں نہیں اور پریم کی راتیں ہیں سپنا اور میرا جی کیسے ہوس کاری کے نشے میں چور اونچے مکان کی طرف گئے تھے، وہ بھی سن لیجیے ؂ یہ دنیا ایک بیوپاری تھی کیسا بہکایا تھا اس نے من جال میں پھنس کر جب تڑپا جھنجھلا اٹھا جھنجھلا اٹھا اس مہم میں کامیاب ہونے کی خوشی تو درکنار، میراجی تو اپنی پاکیزگی زائل ہو جانے کے رنج کو چوٹ کی طرح لیے بیٹھے ہیں ع وہ پہلی اچھوتی سندرتا نیند آ ہی گئی اس کو سوئی اسی طرح کر رہے ہیں نئے شاعر اخلاق و شرافت کا ستیا ناس۔ یہ تو صرف ایسی مثالیں تھیں جن کے معنی صاف ظاہر ہیں لیکن نئے شاعروں کی آواز میں جس نئی انسانیت کی گونج اور ان کے لب و لہجے میں جس نئی اخلاقیات کے قدموں کی آہٹیں سنائی دے رہی ہیں، کیا اس تصور کو واضح تر کرنا، اس خواب سیمیں کو مرئی بنانا، نوعی ترقی کی خدمت نہیں ہے ؟ کیا اس سے زیادہ نرم مزاج، زیادہ توانا، زیادہ رچے ہوئے اخلاق کی بنیادیں استوار نہیں ہو رہی ہیں ؟ لیکن ہمارا مسلک خود فریبی یا عالم فریبی نہیں ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں کو ہنر وری نہیں سمجھتے۔ ہمارے اندر جو اخلاقی تضاد اور تصادم ہیں، ہمیں اچھی طرح ان کا احساس ہے۔ لیکن کا وہی حل کار آمد ہو سکتا ہے جو خود ہمارے اندر پیدا ہوا ہو، آپ کا بخشا ہوا نہیں۔ 
جب آپ “انتقام” یا “گناہ” جیسی نظم کو مردود قرار دیتے ہیں تو آپ صرف ظاہر پرستی کر رہے ہوتے ہیں۔ نئی نسل کی حیرانی، جھنجھلاہٹ، افتادگی اور اذیت پسندی کو متہم کرتے وقت ایک نئے شاعر کا یہ شعر یاد رکھیے جس میں بذات خود نئی اخلاقیات کی رعنائیاں جھلملا رہی ہیں ؂ پاؤں کی تھرتھری نہ دیکھ، دیکھ یہ نالۂ جرس راہ گذار عشق میں چھوٹتی ہمتیں نہ دیکھ ایک بات اور ملحوظ رہے۔ عیسوی، یونانی یا ہندو اخلاقیات کے نقطۂ نظر سے جتنی کمزوریاں آپ نئے شاعر میں ڈھونڈ سکیں گے، ان میں سے کئی خود اقبال کے یہاں بھی ملیں گی، کیوں کہ “شاعر مشرق” کو کسی طرح یورپ کی رومانی تحریک سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ شاعری اور اخلاقیات کے تعلق پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں تو اچھا ہے۔
 اس بحث کے دو پہلو ہو سکتے ہیں جن کے کلاسیکی نمائندے افلاطون اور ارسطو ہیں۔ نئی اردو شاعری تو پھر بھی چھوٹی چیز ہے، افلاطون ہر شاعری کو بنفسہ اخلاق دشمن سمجھتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ شاعری سے جذبات میں اتنا ہیجان پیدا ہوتا ہے جس سے طبیعت کا اعتدال قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اس نے اپنی مثالی ریاست سے شاعروں کو بصد تکریم رخصت کر دینے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اس کے برخلاف ارسطو کی تخیل پسندی نے ادب کے متعلق ایسا قطعی فیصلہ نہیں کیا۔ اس کی رائے ہے کہ شاعری جذبات میں تہلکہ مچا دینے والا ہیجان پیدا نہیں کرتی بلکہ رکے ہوئے جذبات کو راہ دیتی ہے اور زوائد خارج کر کے دوبارہ استدلال قائم کرتی ہے اور یہی رائے ہے جدید نفسیات کا۔ لیکن افلاطون کا انجام عبرت ناک ہے۔ حضرت بڑے دور اندیش اور پیش بیں بن کر چلے تھے، لیکن خود جناب ہی کا فلسفہ آج تک جذبات میں ہیجان پیدا کر رہا ہے اور اکثر رنگین مزاجوں کا ملجا و ماویٰ بن رہا ہے نہ کہ سوفو کلیز اور یوری پائیڈز کی شاعری۔ تو جب تک شاعری کو شاعری سمجھ کر پڑھا جاتا ہے اور اسے اخلاقیات کا بدل نہیں سمجھا جاتا، اس سے نقصان پہنچنے کا احتمال نہیں۔ لیکن جہاں شاعر نے اپنی حیثیت سے غیر مطمئن ہو کر شاعری سے زیادہ عارف، فلسفی، سیاسی یا مذہبی پیشوا، مصلح، معلم اخلاق، قانون ساز یا پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں نے اس کا مطالبہ منظور کر لیا تو پھر شاعری تو خیر خطرے میں پڑی سو پڑی، ہیئت اجتماعی کو بھی ڈرنا چاہیے کہ بھرے بازار میں مست ہاتھی گھس آیا۔ اگر شاعر اخلاقیات کے پرچار کو شاعری سے اونچا درجہ دے دے تو پیغمبری تو شاید وہ کر لے مگر شاعری اس کے بس کی نہیں رہتی۔ شاعری کا مقصد نہ تو قوموں کو زندہ کرنا ہے (ممکن ہے اس کا یہ اثر بھی ہوتا ہو)، نہ نالیوں کی صفائی نہ چکلوں کا اشتہار دینا، بلکہ ایک بڑا حقیر سا …ملارمے کے الفاظ میں to evoke objects، اسی کو الیٹ نے کہا ہے to present actuality …ظاہر ہے کہ اس مفہوم میں وہ روحانی اور نفسیاتی تجربے بھی شامل ہیں جو تجربہ کرنے والے کے لیے واقعی ٹھوس چیزوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ڈرتے ڈرتے میں اسی مفہوم کے لیے صوفیوں کی اصطلاح “حال” پیش کروں گا۔
 اخلاقی درس قال ہوتا ہے اور شاعری حال۔ شعر میں ‘جو ہونا چاہیے ‘ نہیں ہوتا بلکہ ‘جو ہو چکا ‘ امر متوقع نہیں امر واقع۔ اسی وجہ سے میں دعویٰ کرتا ہوں کہ کوئی شاعری جو اس نام کی مستحق ہے، اخلاق سے باہر نہیں ہوتی۔ یہ تو تھا شعر پڑھنے کا پہلا درجہ، دوسرے درجے میں ہم اس مخصوص شعر کے اخلاقی مزاج سے بھی بحث کر سکتے ہیں۔ اسے اچھا یا برا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس مزاج کو اپنے اخلاقی نظام میں اونچی یا نیچی جگہ بھی دے سکتے ہیں، کیوں کہ ہر وقت شعر کو شعر کی حیثیت سے پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتے لیکن دوسرے درجے کو پہلے رکھنا ہمیں ہمیشہ بہکا دے گا۔ اس مخصوص مزاج کی جگہ اپنے اخلاقی نظام میں کیسے ڈھونڈیں، یہ بھی عرض کیے دیتا ہوں۔ شعر میں، جیسا میں نے کہا، امر متوقع نہیں ہوتا بلکہ امر واقع۔ اس لیے شعر اخلاقی لائحۂ عمل نہیں ہو گا بلکہ اخلاقی دستاویز جس کو آپ اپنی طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک بے ڈھنگی سی مثال دوں گا۔ شعر تو ایک اینٹ ہے جسے گھر کی دیوار میں بھی لگا سکتے ہیں اور چاہیں تو راستہ چلتوں کا سر بھی پھوڑسکتے ہیں اور اپنا بھی۔ وہی نظمیں جو آپ کو خطرناک طور پر فحش معلوم ہوتی ہیں، قومی تعمیر کے کام میں مدد دے سکتی ہیں، بشرطیکہ آپ انھیں استعمال کر سکیں۔ ایزرا پاؤنڈ کو اس سلسلے میں بڑی کار آمد تشبیہ سوجھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شاعر تو خطرے کی گھنٹی ہے۔ وہ آپ کو آگاہ کر سکتا ہے کہ آگ لگ رہی ہے لیکن اسے آپ آگ بجھانے والا انجن بننے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ لیکن ہمارے مداوائی دوستوں کو تو ضد ہے کہ گھنٹی میں ہی سے پانی ابل پڑے، ورنہ جلتا رہے تو جلا کرے۔ ہم تو ہاتھ پیر ہلانے والے ہیں نہیں۔ غرض یہ کہ شاعری کی اخلاقی قدر و قیمت کو افعال کی حیثیت سے نہ جانچیے بلکہ اشعار کی حیثیت سے۔ شعروں میں خواہ مخواہ اوپر سے اخلاقیات ٹھونسنے کے متعلق میری بات نہ مانیے بلکہ گوئٹے کی رائے سنیے، جسے اب سے پہلے تک نہ صرف بہت بڑا شاعر بلکہ فلسفی، معلم اخلاق اور عارف سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ادب میں دو قسم کے جعل ساز ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو فنی پہلوؤں کو غیر ضروری سمجھ کر صرف روحانیت یا خیالات کے بھروسے پر شاعری کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے وہ جو صرف ایک خوب صورت سا ڈھانچا بنا کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ دوسرا گروہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور پہلا آرٹ کو۔ لیکن اگر آپ شعر پڑھتے وقت ذہنی توازن قائم نہیں رکھ سکتے اور چھوت سے گھبراتے ہیں تو پھر یہی ہو سکتا ہے کہ آپ اس نصیحت پر عمل کریں : “تو نہ جا تیرا کورا پنڈا ہے۔ “ لڑکیوں کا اخلاق درست رکھنے کی فکر بھی ایک مستحسن جذبہ ہے لیکن جب تک جنسی تعلیم کا انتظام نہیں ہوتا، ان کے لیے ہر چیز اشتعال انگیز بن سکتی ہے۔ میرے مشاہدے میں تو یہ آیا ہے کہ جنسی لذت کا سبق لڑکیاں “بہشتی زیور” سے سیکھتی ہیں بلکہ نئی شاعری ایک طرح جنسی بے راہ روی کو روکنے میں معاون ہو سکتی ہے کیوں کہ وہ محبت کے جنسی پہلو پر پردہ نہیں ڈالتی بلکہ ہم آغوشی کی آرزو پہلے ہوتی ہے، عہد وفا کے ابدی ہونے کا وعدہ بعد میں۔ ہاں، آپ حضرات کی تکنیک اس سے مختلف ہے۔ آپ افلاطونی محبت کی ٹٹی کے پیچھے سے شکار کھیلتے ہیں۔ حملہ کرنے سے پہلے دھواں پھیلاتے ہیں۔ نیا شاعر تو پہلے ہی سے جتا دیتا ہے کہ محبوبہ کو کیا کھونا اور کیا پانا ہے۔ بہرحال اگر کنوئیں میں گرنا ہی ٹھہرا تو آنکھوں پر پٹی باندھ کر گرنے سے بہتر آنکھیں کھول کر گرنا ہے۔ اور جب آنکھیں کھلی ہوں تو آدمی مشکل سے گرنے پر رضامند ہوتا ہے۔






Comments